متحدہ ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جب لائل پور(فیصل آباد) کے نام سے نیا شہر بسایا گیا تو اس کی آبادکاری کے لیے جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا، میاں فتح دین ان میں سب سے نمایاں ہیں۔
ان کی ایک اور وجہ شہرت یہ ہے کہ انہیں فیصل آباد اور نواحی علاقوں میں سو سے زائد مساجد، مدارس، سکول، کالج اور دیگر فلاحی ادارے قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
فیصل آباد کی تاریخ کے حوالے سے اشرف اشعری کی کتاب ’فیصل آباد تاریخ کے آئینے میں‘ اور لیاقت علی سندھو کی کتاب ’کھوج‘ میں بھی منشی فتح دین کے حوالے سے یہ درج ہے کہ انہوں نے فیصل آباد میں سو سے زائد مساجد تعمیر کروائی تھیں۔
مقامی لوگ انہیں منشی فتح دین کے نام سے یاد کرتے ہیں ،ان کی آخری آرام گاہ حلال روڈ پر بوہڑ چوک کے قریب جامع مسجد فتح دین سے ملحق ان کے آبائی قبرستان میں ہے۔
اس علاقے کا پرانا نام چک 224 ر،ب ہے تاہم اسے آج بھی ’منشی فتح دین دی چووی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ 1900 میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے لائل پور آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اسی علاقے میں کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔
منشی فتح دین کے پڑپوتے میاں ہارون یاسین نے انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’1896 میں لائل پور کی آبادکاری کے لیے برطانیہ کی حکومت نے میاں فتح دین سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ جالندھرکے بڑے زمیندار تھےاور ان کے بڑے بیٹے میاں برکت اللہ جالندھر سمیت پانچ اضلاع کے ذیل دار اور آنریری مجسٹریٹ تھے۔
’سرگنگا رام اور منشی صاحب آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔ برٹش حکومت نے سرگنگا رام کو درخواست کی کہ آپ منشی میاں فتح دین کو درخواست کریں کہ ہماری مدد کریں ہم نے نیا شہر بنانا ہے۔ سر گنگا رام نے منشی صاحب کو رضامند کر لیا اور پھر وہ 1900 میں فیصل آباد پہنچے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لائل پور آنے کے بعد منشی فتح دین نے سب سے پہلی مسجد عبداللہ پور میں اپنے گھر کے پاس بنائی تھی جس کے ساتھ شہر کا پہلا دارالعلوم بھی تعمیر کیا گیا تھا۔
’اس کے بعد دوسرے نمبر پر شہر میں ظاہر ہے تحصیل تھی، دفاتر بنے، سب کچھ ہوا، تو پھر وہ تحصیل والی مسجد بنی جو حبیب بینک پلازہ کے بالکل سامنے ہے۔ وہ بھی تقریبا ایک ایکڑ میں ہے۔‘
میاں ہارون کے مطابق ’اس دور میں جب کچہری بازار والی مسجد کی جگہ نیلام ہو رہی تھی تو وہ اپنے خچر پر وہاں پہنچے اور انہوں نے انگریز سے کہا کہ آپ نے جتنے پیسوں میں بھی دینی ہےمیرے نام ڈال دیں۔
’منشی صاحب نے کہا کہ اس کی رجسٹری اہل اسلام کے نام پر کر دیں اور پھر اس کی رجسٹری اہل اسلام کے نام پر ہوئی بذریعہ منشی فتح دین، تو تیسری مسجد وہ بنی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’فیصل آباد میں منشی فتح دین 101 مربع اراضی کے مالک تھے جبکہ ملحقہ شہروں گوجرہ، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ میں بھی ان کے پاس کافی اراضی تھی جو انہوں نے انگریز حکومت سے نیلامی میں خریدی تھی۔
’جہاں جہاں زمینیں تھیں ان شہروں کی جامع مساجد، مرکزی عید گاہیں، یتیم خانے اور متعدد قبرستان منشی صاحب نے وہاں پر عطیہ کیے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لائل پور میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد بھی منشی فتح دین نے رکھی تھی ۔
"اس کے زیر انتظام اسلامیہ کالج، اسلامیہ سکول، یہ طارق آباد میں آدھے مربعہ میں سکول ہے جو منشی صاحب کا عطیہ ہے اور پھر اس کے ساتھ ایک یتیم خانہ بنایا۔‘
میاں ہارون کے مطابق ’منشی فتح دین نے اپنی ملکیتی اراضی میں مختلف مقامات پر اراضی مختص کر کے وہاں دیگر شہروں سے آنے والے تاجروں کے لیے سرائے بھی بنائی تھیں کیونکہ اس وقت لائل پور اناج کی مرکزی منڈی تھی جہاں سے پورے پنجاب کو اناج سپلائی ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’1911 میں منشی فتح دین کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے اپنے والد کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئےفلاحی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا ۔
’ میاں برکت اللہ مرحوم جو میرے دادا ہیں اور سب سے بڑے بیٹے منشی صاحب کے وہ انجمن اسلامیہ کے پہلے صدر تھے۔ چونکہ وہ خود گریجویٹ تھے، پڑھے ہوئے تھے علی گڑھ سے انہوں نے ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئےسکولوں پر بھی زور دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ریلوے روڈ پر واقع مرکزی چرچ اور اس سے ملحق سیکرڈ ہارٹ کانونٹ سکول کی اراضی بھی منشی فتح دین ، میاں برکت اللہ اور ان کے بھائیوں نے عطیہ کی تھی۔ ‘
ان کے مطابق ’منشی فتح دین نے جہاں جہاں مساجد تعمیر کیں ان کے ساتھ علمائے دین، مولوی صاحبان اور موذن صاحبان کی رہائش گاہوں کے علاوہ کمرشل جائیدادیں بھی وقف کیں تاکہ اس کی آمدن سے مسجدوں کا نظام چلتا رہے۔
’آج بھی آپ دیکھیں کچہری بازار کی جامع مسجد کے ساتھ کم و بیش اربوں روپے کی دکانیں ہیں اور ساری آمدن مسجد کو جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’منشی فتح دین کی بنوائی گئی مساجد کا 99 فیصد انتظام مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کے سپرد ہے جبکہ جو مرکزی جامع مساجد ہیں یا جن کی آمدن بہت زیادہ ہے وہ 1960 کی دہائی میں محکمہ اوقاف نے اپنے زیر انتظام لے لی تھیں۔
"صرف ایک مسجد عبداللہ پور والی ہے، اس مسجد کا انتظام میرے پاس ہے، اس کا متولی، منتظم اعلی میں ہوں۔ یہ مسجد بھی اوقاف نے لے لی تھی یہ پھر تقریبا میرا خیال ہے کہ 1970 میں عدالت نے میرے والد کو واپس کر دی تھی۔‘
ان کے مطابق ’اس تاریخی مسجد کو اوقاف سے واپس لینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسجد سے ملحق قبرستان میں ان کے آباو اجداد کی قبریں ہیں۔‘