پشاور قصہ خوانی بازار: قصوں اور قہووں سے تزئین نو تک کا سفر

پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کی تزئین و آرائش کی گئی ہے جو کبھی قہوہ خانوں اور کہانیوں کی وجہ سے تاجروں اور مسافروں کی پسندیدہ آرام گاہ ہوا کرتا تھا۔

پشاور کا قصہ خوانی بازار جہاں کبھی تاجر اور مسافر گھوڑوں اور اونٹوں پر سامان لادھ کر کابلی گیٹ کے سراؤں میں پڑاؤ ڈالتے تھے۔ قہوہ خانوں میں قہوے کے دور چلتے تھے اور ساتھ میں قصے کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔

اسی وجہ سے اندرون شہر پشاور میں اس بازار کا نام قصہ خوانی بازار پڑ گیا جہاں اب بھی آپ کو وہی صدیوں پرانی عمارتیں ملں گی جس میں بعض 17 ویں، 18 ویں اور زیادہ تر 19 ویں صدی میں تعمیر کی گئی ہیں۔ 

جنوبی ایشیا کے تاریخی بازاروں میں شامل قصہ خوانی بازار میں تزئین و آرائش کا کام مکمل ہو گیا اور مغلیہ دور کی طرز تعمیر تزئین و آرائش کے بعد نمایاں نظر آنے لگی ہے۔

پشاور کے ضلعی انتظامیہ نے بیوٹیفیکیشن پروگرام کے تحت قصہ خوانی بازار کو بحال کیا ہے۔ جس میں پرانی عمارتوں کو بحال اور اس کو باقاعدہ  پینٹ کیا گیا ہے۔

بازار میں موجود دکانوں کے سائن بورڈ ایک ہی شکل و ڈیزائن اور ایک ہی فونٹ میں تبدیل کیے گئے ہیں۔ جبکہ بازار میں واقع سب سے پرانے قہوہ خانے کو بھی رنگوں سے نکھارا گیا ہے۔

پشاور اور قہوے کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اور اسی رشتے میں قصہ خوانی کا بازار خاصا مشہور ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا میں چائے سمیت مہمانوں کو قہوہ بھی پیش کیا جاتا ہے اور یہ روایت قبائلی اضلاع میں بہت زیادہ ہے۔

شیر عالم شنواری کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور وہ مختلف جریدوں کے لیے ثقافت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قہوہ خاص کر پشتون روایات سے اب تک جڑا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب سے بہترین قہوہ افغانستان کے باشندے تیار کرتے ہیں اور وہاں پر چائے کا رواج بالکل نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

عالم شنواری نے بتایا: ’قصہ خوانی بازار کے قہوے کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہے۔ برصغیر کی تقسیم یعنی 1947 سے پہلے یہ بازار ایک تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا اور ملک کی مختلف جگہوں سمیت انڈیا، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک سے تاجر یہاں آرام کرتے تھے۔ یہاں یہ تاجر ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے اور ساتھ میں قہوہ پیتے تھے اور اسی وجہ سے اس بازار کا نام بھی قصہ خوانی بازار پڑ گیا‘۔

قصہ خوانی بازار کی بحالی میں بازار میں موجود بجلی کی تاروں کو زیر زمین کرنا بھی شامل تھا۔

مین ٹرانسمیشن لائن کو چھوڑ کر میٹر کے ساتھ جڑے تمام بجلی کی لائنوں کو زیر زمین کیا گیا ہے جس سے بازار میں موجود عمارتیں اب واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ 

ان تاریخی عمارتوں پر ہر ایک عمارت کے ساتھ تعمیر کا سال بھی لکھا گیا ہے جبکہ عمارتوں میں مختلف قسم کی برقی روشنیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔ 

یہ بازار پرانے زمانے میں صرف تجارتی مرکز نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ انڈیا کی فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے کچھ ستارے بھی جڑے ہیں۔ 

انڈیا کے فلمی ستارہ دلیپ کمار کا آبائی گھر اسی قصہ خوانی بازار سے متصل ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق دلیپ کمار اسی حویلی میں 1922 میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا نام محمد یوسف رکھا گیا تھا۔ 

اسی طرح راج کپور حویلی بھی اسی بازار کے ڈھکی منور شاہ گلی میں واقع ہے۔ پرتھوی راج کپور بھی اسی گھر میں رہے تھے اور 1931 میں بمبئی (موجودہ ممبئی) متنقل ہو گئے تھے۔ 

پشاور کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب میں مؤرخ ابراھیم ضیا نے لکھا ہے کہ ’دلیپ کمار 1988 میں اس وقت پشاور آئے تھے جب انہیں نشان امتیاز سے نوازا گیا تھا اور وہ اپنا گھر دیکھنے گئے تھے لیکن قصہ خوانی بازار میں ان کے استقبال کے لیے بہت زیادہ رش کی وجہ سے وہ ادھر نہیں پہنچ سکے‘۔ 

قصہ خوانی بازار اور خدائی خدمت گار تحریک 

قصہ خوانی بازار کے عین وسط میں ایک یادگار بھی بنائی گئی ہے۔

یہ یادگار 1930 میں اسی بازار میں خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں  پر انگریز فوجیوں کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں جان سے جانے والوں کی یاد میں بنائی گئی ہے۔

انڈیا کے ڈاکٹر منوراما اور ڈاکٹر انیل پوروہت کے پروٹیسٹ آئیڈیالوجیز ان انڈیا نامی کتاب میں لکھا ہے کہ انگریزوں کے خلاف خدائی خدمات گار تحریک کی جانب سے اس خطے میں اس وقت یہ پہلی مزاحمت تھی۔ 

اسی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ مزاحمت کے دوران انگریز فوجیوں کی جانب سے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی گئی تھی لیکن اس میں جان سے جانے والوں کی اعداد و شمار میں تضاد ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین