رئیسی کی موت: کیا ایران اصلاحات کا راستہ اپنائے گا؟

صدر رئیسی کی موت کے بعد ایران کے پاس موقع ہے کہ وہ خود احتسابی کرتے ہوئے صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ایسی حکومت قائم کرے جو ملک میں سیاسی اور سماجی جبر ختم کرے۔

20 مئی، 2024 کو بغداد میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے لیے پھول اور شمعیں روشن کی جا رہی ہیں(اے ایف پی)

صدر ابراہیم رئیسی کی ایک حادثے میں موت کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایک بار پھر موقع آیا ہے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزرے اور صاف و شفاف انتخابات کرا کے ایک ایسی حکومت قائم کرے جو ملک میں رائج سیاسی اور سماجی جبر کو ختم کرے۔

ایرانی اشرافیہ انقلاب کی تعریف میں کئی پل باندھ سکتی ہے لیکن دوسرے کئی ممالک میں آنے والے انقلابوں کے برعکس 1979 کے ایرانی انقلاب نے عوام الناس کے لیے کوئی خاص آسانیاں پیدا نہیں کیں۔

ایران عالمی سطح پر تنہا ہوا جب کہ مقامی سطح پر ملک میں سماجی اور سیاسی جبر بڑھا۔ مذہبی طبقے کی طاقت میں اضافہ کر کے انقلاب برپا کرنے والوں نے اپنے ہی ملک کی عوام کے لیے مشکلات پیدا کیں۔

آج دنیا کے کسی ملک میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں کو صرف موسیقی سننے، خواتین کو مخلوط مجلسوں میں شرکت کرنے، فنکاروں کو اپنے فن کے مظاہرے کرنے یا حکومت کے خلاف بولنے پر سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس طرح کے جبری قوانین ایران، افغانستان اور دنیا کے چند ہی ممالک میں نظر آتے ہیں اور اس طرح کے اقدامات کو دنیا میں اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔

ایرانی اشرافیہ یہ بہانہ کر سکتی ہے کہ جن ممالک میں انقلاب آتے ہیں، ان کے لیے مشکلات ہوتی ہیں، تاہم یہ حقائق پیش نظر رکھنے چاہییں کہ روس، چین، کیوبا سمیت کئی ممالک میں انقلابات نے عوام کی زندگی میں تمام طرح کی پابندیوں اور مشکلات کے باجود آسانیاں پیدا کیں۔

انہیں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، رہائش اور روزگار کی سہولتیں فراہم کیں۔ مثال کے طور پر جب 1917 میں روس میں انقلاب آیا تو پہلی عالمی جنگ اور انقلاب کے بعد کی خانہ جنگی میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔

اس کے علاوہ روس کے 86 فیصد کوئلے کی کانیں، 26 فیصد ریلوے اور ایک تہائی آبادی جرمن تسلط میں چلی گئی۔

دوسری عالمی جنگ میں پوری دنیا میں سات کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے، جن میں سوویت کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ تھی۔

کرڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے جب کہ 34 ہزار سے زیادہ صنعتیں تباہی کا شکار ہوئیں۔ اس کے باوجود 1956 میں دنیا کا پہلا صنعتی ملک امریکہ تھا جبکہ دوسرا سوویت یونین۔

 جس سوویت یونین میں 1917 میں شرح زندگی صرف 37 برس کے قریب تھی، وہ 62 اور کچھ علاقوں میں 72 تک بھی پہنچی۔

تعلیم جو بمشکل 20 فیصد تھی وہ تقریباً 80 فیصد سے بھی اوپر گئی۔ سوویت یونین نے خلا میں سب سے پہلی خاتون بھیجی اور خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ تمام طرح کی پابندیوں کے باوجود ہوا۔

چین میں 1949 میں جب انقلاب آیا تو شرح زندگی تقریباً 36 یا 37 برس تھی لیکن ماؤ زے تنگ کے دور میں تمام طرح کی پابندیوں کے باوجود معاشی شرح نمو پانچ فیصد رہی جبکہ شرح زندگی بھی 70 سے اوپر گئی۔

تعلیم میں چین نے تیزی سے ترقی کی اور اب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ واضح رہے کہ انقلاب سے لے کر 1979 تک چین پر کئی طرح کی پابندیاں لگی رہیں۔

کیوبا میں 1959 میں انقلاب آیا اور جب سے ہی اس ملک پر کئی طرح کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ چھوٹا سے ملک لاطینی امریکہ کا سب سے تعلیم یافتہ ملک ہے۔

یہ پہلا ملک ہے جس نے ایچ آئی وی کی ماں سے بچے میں منتقلی کو روکا۔ اس کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی شرح اموات بہت کم ہے۔

اس کے برعکس ایران کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک ہیلی کاپٹر بھی اپنا نہیں بنا سکا۔ مذہبی طبقے کا زیادہ زور اس بات پر ہے کہ کس طرح ملک میں نام نہاد شیطانی گروپوں کو قابو میں رکھا جائے، خواتین کی آزادیوں پر پابندی لگائی جائے، لوگوں کو سازشی نظریات کی تعلیم دی جائے اور خود احتسابی سے بچا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی مسائل پر ایرانی اشرافیہ کی توجہ کم ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں گذشتہ برس بے روزگاری کی شرح 7.90 فیصد تھی۔

پابندیوں کی وجہ سے ایران میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس برس یہ شرح 37.5 فیصد ہے۔ 49 فیصد کے قریب لوگ فوڈ ان سکیورٹی کا شکار ہیں۔

 اس صورت حال سے کئی نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو کر نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق منشیات پر تمام طرح کی سختیوں کے باوجود تقریباً 37 لاکھ لوگ مختلف طرح کے نشے کرتے ہیں۔

ایران خود کو لاکھ جمہوری کہتا رہے لیکن کئی ناقدین کے خیال میں شوری نگہبان اور سپریم رہنما علی خامنہ ای کے پاس بے تحاشہ اختیارات ہیں۔

ایرانی مذہبی طبقے کی اجارہ ختم کیے بغیر حقیقی جمہوری نظام کی طرف پیش رفت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ طبقہ ایسے افراد کو انتخابات کے لیے ہی نااہل قرار دے دیتا ہے جو جمہوری اصلاحات لانا چاہتا ہے اور ایران میں جبر کے ماحول کو کسی حد تک کم کرنا چاہتا ہے۔

ابراہیم رئیسی کے بعد بھی اگر ایرانی اشرافیہ نے ایک سخت گیر رہنما کو مسند اقتدار پر بٹھایا تو ایران عالمی برادری میں مزید تنہا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایرانی عوام کو حقیقی معنوں میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے، جو خواتین، مزدور طبقات اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں اور ایران کو مذہبی طبقات کے چنگل سے نکال کر اسے جدت پسندی کے راستے پر ڈالیں۔

رئیسی کا 40 برس پرانے ہیلی کاپٹر میں سفر اور اس میں تیکنکی خرابی نے نہ صرف اس افسوس ناک حادثے کو جنم دیا ہے بلکہ اس نے ایرانی انقلاب کے حوالے سے بھی مختلف سوالات اٹھا دیے ہیں جن کے جوابات کے لیے ایرانی اشرافیہ کو خود احتسابی کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔

ورنہ ایران بددستور جدت پسندی اور جدید دنیا سے دور رہے گا اور اس کا خمیازہ اس کی عوام بھگتے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ