ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت تنازعات سے بھرپور رہا

ایرانی صدر، جن کا کیریئر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں شروع ہوا، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب تھے۔ انہوں نے 2021 میں میں اقتدار سنبھالا، جس کے بعد انہیں کئی سال تک مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایران کے صدر اتوار کو آذربائیجان کے نزدیک ایرانی سرحد پر ہیلی کاپٹر کریش ہونے کے بعد جان سے گئے۔

63 سالہ ابراہیم ریئسی دوسری کوشش میں 2021  میں ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد  اخلاقی قوانین کو سخت کرنے کا حکم دیا۔ حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کی نگرانی کی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات پر زور دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران کا سیاسی نظام مذہبی قیادت اور حکومت کے درمیان منقسم ہے اور اس میں تمام اہم پالیسیوں پر حتمی فیصلہ صدر کی بجائے سپریم لیڈر کا ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ رئیسی کو اپنے 85 سالہ سرپرست سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جگہ لینے کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھتے تھے۔

خامنہ ای بھی رئیسی کی اہم پالیسیوں کی بھرپور حمایت کیا کرتے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہمیشہ سیاہ عمامہ اور قبا پہنے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی بیرون ملک محاذ آرائی اور اندرون ملک بڑے پیمانے پر احتجاج کے ہنگامہ خیز دور کے دوران عہدے پر رہے۔

ایرانی صدر، جن کا کیریئر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں شروع ہوا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب تھے۔ انہوں نے 2021 میں میں اقتدار سنبھالا، جس کے بعد انہیں کئی سال تک مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔

خامنہ ای کی طرح رئیسی بھی اکثر اس وقت کھل کر بات کرتے رہے جب کہ ایران، اپنے اعلان کردہ دشمن امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تناؤ کی حالت میں ہے۔

رئیسی نے ایسے الیکشن میں اقتدار سنبھالا جس میں آدھے سے زیادہ ووٹر پولنگ سے دور رہے۔ کئی بڑے سیاست دانوں کو الیکشن میں کھڑے ہونے سے روک دیا گیا۔

انہوں نے اعتدال پسند حسن روحانی کی جگہ لی جن کی اہم کامیابی 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ تھا جس نے ایران کو بین الاقوامی پابندیوں میں ریلیف دیا۔

دیگر قدامت پسندوں کی طرح رئیسی نے 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یک طرفہ طور پر جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کرنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد اپنے پیشرو کے کیمپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

جب رئیسی نے اقتدار سنبھالہ ایران معاشی ومعاشرتی بحران کا شکار تھا۔ اپنے آپ کو بدعنوانی سے لڑنے والے غریبوں کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کے بعد، رئیسی نے کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کچھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوا۔

اس کے بعد، 2022 کے آخر میں، خواتین کے لباس کے لیے ایران کے سخت اسلامی ضابطے کی مبینہ طور پر خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

مارچ 2023 میں ایک تاریخی تقریب میں، ایران اور سعودی عرب  نے ایک حیرت انگیز معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔

اس سے قبل اتوار کو رئیسی نے فلسطینیوں کے لیے ایران کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’فلسطین مسلم دنیا کا اولین مسئلہ ہے۔‘

اسلامی انقلاب کے بعد فلسطینیوں کی حمایت ایران کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔

عدلیہ کے سربراہ

1960 میں شمال مشرقی مقدس شہر مشہد میں پیدا ہونے والے رئیسی نے خامنہ ای کے دور میں الہیات اور اسلامی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

ان کی شادی تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں ایجوکیشنل سائنسز کی لیکچرر جمیلہ علم الہدیٰ سے ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹنے والے ایران کے اسلامی انقلاب کے تناظر میں صرف 20 سال کی عمر میں رئیسی کو تہران کے قریب شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل، 2004 سے ایک دہائی تک جوڈیشل اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

2016 میں خامنہ ای نے رئیسی کو ایک خیراتی فاؤنڈیشن کا انچارج مقرر کیا جو مشہد میں امام رضا کے روضے کا انتظام سنبھالتی ہے اور بڑے صنعتی اور دیگر اثاثوں کو کنٹرول کرتی ہے۔

تین سال بعد سپریم لیڈر نے انہیں جوڈیشل اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ رئیسی ماہرین کی مجلس کے رکن بھی تھے جو سپریم لیڈر کا انتخاب کرتی ہے۔

رئیسی کا نام ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ میں ملوث ہونے کی وجہ سے واشنگٹن کی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل ہے۔ ان الزامات کو تہران کے حکام نے بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

ایران کی جلاوطن حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے گروپوں کے معاملے میں ان کا نام 1988 میں مارکسسٹوں اور بائیں بازو کے دیگر افراد کو بڑے پیمانے پر پھانسیوں کی یاد دلاتا ہے، جب رئیسی تہران میں انقلابی عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر تھے۔

2018 اور 2020 میں سزائے موت کے بارے میں پوچھے جانے پر رئیسی نے کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کیا۔ اگرچہ انہوں نے اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی طرف سے جاری کردہ حکم کو سراہا۔

2009 میں جب ’گرین موومنٹ‘ نے عوامیت پسند صدر محمود احمدی نژاد کی دوسری متنازع دوسری مدت جیتنے کے خلاف ریلی نکالی، تو رئیسی نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

پاکستان کا دورہ

ابراہیم رئیسی اپریل 2024 میں پاکستان کے تین روزہ دورے پر ایک ایسے وقت میں آئے جب اس سے دو ماہ قبل پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد پر ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے ایران نے 16 جنوری کو پاکستانی علاقے کے اندر میزائل حملے کر کے مبینہ طور پر جیش العدل نامی ایک تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل 15 دسمبر 2023 کو جیش العدل کے ایک مبینہ حملے میں ایرانی شہر رسک میں 11 پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس کے دو ہی دن بعد پاکستان نے ایران کے بلوچستان سیستان صوبے کے اندر جوابی حملہ کیا اور کہا کہ اس نے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ 

ان حالات میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی اور اسی تناظر میں صدر رئیسی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ ایرانی صدر اس دورے کے دوران لاہور اور کراچی بھی گئے تھے۔

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا