برطانوی اخبار دی گارڈین کی تحقیق کے مطابق اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں عالمی عدالت جرائم (آئی سی سی) کی تحقیقات کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ آزمانے سے گریز نہیں کیا۔
گارڈین کی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں اسرائیل اور امریکہ نے مل کر عالمی عدالت جرائم کے خلاف مہم چلائی۔
رواں ہفتے جب عالمی عدالت جرائم (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر رہے ہیں، تو انہوں نے ایک خفیہ انتباہ جاری کیا: ’میں اصرار کرتا ہوں کہ اس عدالت کے عہدیداروں کو روکنے، ڈرانے دھمکانے یا غیر مناسب طور پر متاثر کرنے کی تمام کوششیں فوری طور پر بند ہونی چاہئیں۔‘
کریم خان نے آئی سی سی کے کام میں مداخلت کی کوششوں کی مخصوص تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن انہوں نے عدالت کے بنیادی معاہدے کی ایک شق کا ذکر کیا جس میں اس طرح کی کسی بھی مداخلت کو مجرمانہ جرم قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ طرز عمل جاری رہا تو میرا دفتر کارروائی کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔
دی گارڈین کے ’جاسوسی، ہیکنگ اور دھمکیاں: آئی سی سی پر اسرائیل کی نو سالہ 'جنگ' بے نقاب‘ نامی مضمون میں فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں عالمی عدالت جرائم (آئی سی سی) کی تحقیقات کو ناکام بنانے کے لئے اسرائیل کی وسیع کوششوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
آئی سی سی نے 2014 کی غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی افواج کی طرف سے مبینہ جنگی جرائم کی ابتدائی تحقیقات 2015 میں شروع کی تھیں۔ ان تحقیقات میں اسرائیلی آبادکاری کی سرگرمیوں کو بھی شامل کیا گیا۔
اسرائیل نے مبینہ طور پر آئی سی سی کے خلاف جدید ترین جاسوسی کی کارروائیاں شروع کیں۔ ان کارروائیوں میں حساس معلومات جمع کرنے اور تحقیقات کو کمزور کرنے کے لیے آئی سی سی کے عملے اور ان کے مواصلات نظام پر ہیکنگ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
دی گارڈین کے مطابق آئی سی سی کے عملے اور ان کے اہل خانہ کو مختلف قسم کی ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دھمکی آمیز فون کالز، نگرانی اور دیگر قسم کے دباؤ کی مثالیں موجود ہیں جن کا مقصد انہیں تحقیقات کو آگے بڑھانے سے روکنا تھا۔
آئی سی سی کے متعدد اراکین نے پیچھا کیے جانے اور نگرانی کے بارے میں بھی بتایا۔ ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کے اہل خانہ کی ذاتی بات چیت کو روک دیا گیا تھا، جس سے انہیں کافی پریشانی اور خوف پیدا ہو گیا تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 16 جنوری 2015 کو، فلسطین کے آئی سی سی میں شامل ہونے کے فوری بعد، پراسیکیوٹر فتو بنسودا نے فلسطین کی صورتحال کا ابتدائی جائزہ لیا۔ اگلے مہینے، دو آدمی دی ہیگ میں ان کے گھر پہنچے، جنہوں نے ایک جرمن خاتون کا خط پہنچانے کا دعویٰ کیا۔ اس خط میں سینکڑوں ڈالر نقد اور ایک اسرائیلی فون نمبر تھا۔ ان افراد نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس واقعے کی اطلاع ڈچ حکام کو دی گئی اور ان کے گھر پر سی سی ٹی وی کیمروں سمیت اضافی حفاظتی اقدامات نصب کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد کے ڈائریکٹر کوہن نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر فتو بینسودا کو نیویارک کے ایک ہوٹل کے کمرے میں کانگو کے اس وقت کے صدر جوزف کابیلا کے ساتھ باضابطہ ملاقات میں غیر اعلانیہ طور پر آ کر انہیں پریشان کر دیا تھا۔ اور پھر جب بینسودا کے دیگر عملے کو کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا گیا تو کوہن ایک دروازے کے پیچھے سے گھات لگا کر باہر آئے۔ اس واقعے کے بعد، کوہن نے مسلسل بینسوڈا سے غیر اعلانیہ رابطہ کیا اور انہیں ناپسندیدہ فون کالز کا نشانہ بنایا۔ ابتدائی طور پر دوستانہ ہونے کے باوجود کوہن کا رویہ تیزی سے دھمکی آمیز اور ڈرانے والا بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے آئی سی سی کی حمایت کرنے والے ممالک پر بھاری سفارتی دباؤ بھی ڈالا۔ اس میں اتحادی ممالک کو آئی سی سی کی فنڈنگ ختم کرنے یا حمایت واپس لینے کے لیے لابنگ کرنا شامل تھا، جس کا مقصد عدالت کو الگ تھلگ کرنا اور اس کے اختیار کو کمزور کرنا تھا۔
فروری 2024 میں آئی سی سی پراسیکیوٹر کریم خان نے اسرائیل کو غزہ کے جنوبی ترین شہر رفح پر حملہ کرنے کے خلاف سخت انتباہ جاری کیا تھا، جہاں 10 لاکھ سے زائد بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔
دی گارڈٰین کے مطابق ایکس پر شائع ہونے والے ان کے تبصرے نے اسرائیلی حکومت کو تشویش میں مبتلا کر دیا، کیونکہ انہوں نے جنگ کے بارے میں اپنے پہلے کے محتاط موقف سے دستبرداری کا اشارہ دیا۔ تشویش اس وقت بڑھی جب اسرائیلی انٹیلی جنس نے خان کے دفتر سے ہونے والی بات چیت کو سن کر یہ اندازہ کر لیا کہ وہ نیتن یاہو اور دیگر سینیئر عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
مزید برآں، دی گارڈین کو موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خان اسرائیلی اجازت کے بغیر مصر کے راستے غزہ میں داخل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کشیدگیوں کے درمیان نیتن یاہو نے عوامی طور پر وارنٹ گرفتاری کے بارے میں انہیں متنبہ کیا اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ آئی سی سی کے اقدامات کی مخالفت کریں۔
اس کے بعد سے آئی سی سی نے مختلف خطرات اور اپنی سرگرمیوں پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کے جواب میں اپنے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کیا ہے، جس میں باقاعدگی سے آفس سویپ اور ڈیوائس چیکنگ شامل ہے۔
بین الاقوامی برادری نے ان ہتھکنڈوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف حکومتوں نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے انصاف اور احتساب میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے۔