پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے مطابق بدھ کو کشمیری شاعر احمد فرہاد کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات ہوئی ہے۔
محکمہ اطلاعات کی جانب سے سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی ہے جس میں شاعر احمد فرہاد کی ان کے اہل خانہ کے ہمراہ تصویر میں جاری کی گئی ہے۔
اس پوسٹ میں تصویر کے ہمراہ لکھا گیا ہے کہ ’احمد فرہاد کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ کافی دیر اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے مطابق ’حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے گرفتار شاعر احمد فرہاد سے ان کی فیملی کو ملاقات سے نہیں روکا گیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر احمد فرہاد کی فیملی سے ملاقات سے روکنے کی خبریں محض پروپیگنڈا ہیں۔‘
14 مئی 2024 کی رات صحافی و شاعر احمد فرہاد کے لاپتہ ہونے کے چند گھنٹوں بعد ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر دی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ دارالحکومت میں اپنے گھر کے باہر سے ’لاپتہ‘ ہو گئے ہیں۔
آج کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے تھانہ دھیر کوٹ کشمیر کی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔
سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’کسی کی ایجنسیوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ادارے قانون کے تحت کام کرنے کی عادت ڈالیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی آدمی پاکستان فوج کے خلاف نہیں ہے، چند لوگوں کی غلط روش کا نقصان پورے ادارے کو ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے گذشتہ سماعت پر سفید جھنڈا لہرانے کی بات کی، میں سمجھتا ہوں کہ اداروں کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے دھیر کوٹ کی رپورٹ پر ریمارکس دیے کہ ’کوہالہ پل کے بعد گرفتار کر کے دائرہ اختیار وہاں کا بنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ چونکہ اب احمد فرہاد لاپتہ نہیں ہیں پولیس کی حراست میں ہیں تو احمد فرہاد کی فیملی سے پوچھ کر بتائیں تو درخواست نمٹا دیں گے۔‘
عدالت نے سماعت جمعے تک ملتوی کر دی۔
کیس کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟
بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔ مغوی شاعر کی اہلیہ عروج زینب نے ایمان مزاری کے ذریعے ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔
اس کے علاوہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے گذشتہ سماعت پر سیکریٹری داخلہ، دفاع، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی اور انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر کو طلب کیا تھا۔
سینیئر صحافی حامد میر بھی بطور عدالتی معاون عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’ہم نے کچھ سوالات اٹھائے تھے جن کے جواب آنا باقی ہیں، ہم نے بنیادی حقوق کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر برجستہ جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ہم نے بھی حلف اٹھا رکھا ہے، ہماری نیت پر بھی شک نا کیا جائے۔‘
جسٹس محسن کیانی نے درخواست گزار وکلا اور صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو دوسری طرف پر کھڑے ہیں یہ بھی آرمی کے خلاف نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ صحافیوں، سیاسی حقوق کے کارکنان اور سیاست دانوں نے برداشت کیا ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ ’آئین مقدم ہے جس میں ہر ایک کے کام متعین ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے، پارلیمنٹ کو بھی اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ہر آفس کا ایک کام کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔
’اگر انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی کو اٹھاتی ہیں تو اس کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ ان سارے کیسز میں ہم نے کچھ سوالات پوچھے ہیں، کس حد تک ان کیسز کی رپورٹنگ ہونی ہے، پیمرا کا کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔‘
وزیر قانون نے جواب دیا کہ ’یہ معاملہ تین جگہوں پر زیر سماعت ہے، تین ہائی کورٹس کیس سن رہی ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’میڈیا کے کردار کی وجہ سے لوگوں میں شعور آیا ہے، سوشل میڈیا پر بدقسمتی سے بہت کچھ چل رہا ہے، میں تو سوشل میڈیا نہیں دیکھتا اس لیے پرواہ نہیں، جو دیکھتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے، میں تو ٹی وی بھی نہیں دیکھتا۔‘