لاپتہ شاعر احمد فرہاد کے مقدمے کی سماعت جعمے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی جس میں ایس ایس پی آپریشنز کو حساس ادارے کے سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی۔
جمعہ کی سماعت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’کچھ سی ڈی آرز ملی ہیں، ان سے تلاش کر رہے ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا ’آپ کہہ رہے ہیں ریاست ناکام ہو چکی ہے۔‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ابھی ریاست ناکام نہیں ہوئی۔ ابھی اس کو ریاست کی ناکامی نہ کہیں، اگر ہم نہ پیش کرسکے تو مان لوں گا کہ ریاست ناکام ہو گئی۔‘
ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ ’لاپتہ شخص کو بازیاب کرنا ریاست کی مجبوری ہے ورنہ ریاست کی ناکامی ہے، کیا سیکرٹری دفاع آئے ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کی حاضری کا حکم نہیں تھا۔ ’سیکرٹری دفاع آج نہیں آئے ان کا حکم نہیں تھا لیکن وہ آجائیں گے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈر اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ سکیٹر کمانڈر ایک ایس ایچ او کے برابر ہے۔‘
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو پولیس کی معاونت کر رہی ہے۔‘ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’آئی ایس آئی اور ایم آئی معاونت نہیں کرتیں؟‘ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے بتایا کہ ’پولیس آئی بی سے ہی معاونت لیتی ہے۔‘
جسٹس محسن نے سوال پوچھا کہ ’اگر پولیس کو پتہ لگ جائے کہ بندہ کسی اور ایجنسی کی تحویل میں ہے تو پھر کیا میکنزم ہے؟‘ آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ سیکرٹری داخلہ کے ذریعے سیکرٹری دفاع سے رابطہ کیا جاتا ہے، پولیس سیکرٹری داخلہ کے ذریعے سیکرٹری دفاع کو شواہد دیتی ہے، پولیس پھر اس واقعے کو جبری گمشدگی کا کیس قرار دے دیتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’یہ تو ریئل ٹائم میں نہ ہونے والا عمل ہے، پولیس سیکرٹری داخلہ کو خط لکھتی ہے وہ سیکرٹری دفاع کو لکھتے ہیں، پھر ایجسنیز کی طرف سے نہ آ جاتی ہے، آپ کی بات مجھے بڑی عجیب لگی کہ جب پتہ چل جاتا ہے تو اسے جبری گمشدگی قرار دے دیتے ہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ ’سیکرٹری دفاع آئندہ سماعت پر پیش ہوں اور آئی ایس آئی کی ورکنگ سمجھائیں۔ آئی ایس آئی میں سیکٹر کمانڈر اور ان کے ماتحت کتنے افراد ہوتے ہیں، احمد فرہاد کی بازیابی نہ ہونا تو ریاست کی ناکامی ہے۔ اب خفیہ ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی، یہ پولیس والے یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ کیونکہ یہ جوابدہ ہیں، امن و امان کی صورت حال خراب بھی ہوتی ہے، پولیس والے ماریں کھاتے ہیں، وردی بھی پھڑواتے ہیں، اگر ادارے جوابدہ نہ ہوں اور آپ انہیں جوابدہ بھی نہ کر سکیں تو کیا ہو گا؟ ایجنسیز کا بھی ایک سٹرکچر ہو گا، کوئی کسی کو جوابدہ ہو گا، ہم نے سارے سوال سمجھنے اور اس میں فیصلہ دینا ہے، اب اس آدمی کا بازیاب ہونا پیچھے رہ گیا ہے، ہم کچھ چیزیں طے کریں گے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جج نے قانون دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے، بندہ بازیاب کر لینا معاملے کا حل نہیں ہے، اگلی تاریخ میں بتائیں کون سے قانون کے ذریعے ایجنسی ریگولیٹ ہوتی ہے، جو پروٹیکٹڈ انفارمیشن ہوتی ہے جج اس کو شیئر نہیں کرتا، ایک مسنگ پرسن کے کیس میں سکریٹری دفاع اور داخلہ کو کروڑ کروڑ روپے جرمانہ کیا تھا، میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی عدالت نے دہشت گرد کو ضمانت دی ہو، 10 دن ہو گئے ہیں، پتہ نہیں بچارے کا کیا حال ہو گا۔‘
’لاپتہ افراد کیس کی آئندہ سماعت براہ راست ہو گی‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالتی معاونین بھی مقرر کیے جائیں گے، وہ صحافیوں میں سے بھی ہوں گے، سابق آئی جیز کو بھی دعوت دوں گا۔‘
صحافیوں نے عدالت سے پوچھا کہ عدالت نے جو آج باتیں کی ہیں کیا وہ ہم چلا سکتے ہیں؟‘ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’آپ بالکل چلا سکتے ہیں، مسنگ پرسنز کے مقدمات اب لارجر بینچ میں بھجوانے کا کہوں گا، ہماری کورٹ میں بھی آئندہ مسنگ پرسنز کی سماعت لائیو ہوگی، میں آرڈر کر رہا ہوں آئندہ اس کیس کی لائیو کوریج ہو گی۔‘