پاکستان میں نئے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں کی جاری ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مشاورت کی جا رہی ہے۔
عوام اور ان کے نمائندہ ادارے سب سے بڑے سٹیک ہولڈزر ہیں، لیکن بجٹ میں ان کی رائے لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
بلکہ نئے ٹیکسز کا سونامی تیار کیا جا چکا ہے جو کہ چند روز میں عوام کی امنگوں کو بہا کرلے جائے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے اس کی کاپی عوام اور اس کے نمائندہ اداروں تک پہنچائی جائے اور پالیسیز پر پول کروائے جائیں تاکہ بجٹ عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔
لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی سرکار کو کس طرح کا بجٹ پییش کرنا چاہیے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سٹیک ہولڈرز سے رائے لینے کی کوشش کی ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بجٹ کا فوکس اس بات پر ہونا چاہیے کہ کس طرح انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو کم کیا جائے تا کہ مہنگائی کم ہو اور برآمدات بڑھ سکیں۔ روپے کو کنٹرول کرنے والے تجربے کئی سال سے ہو رہے ہیں اوراس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ برآمدات کو بڑھائے بغیر نہ ہی انڈسٹری ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی ملک کی آمدن بڑھ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے ریٹس کم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ انڈسٹری اور عوام کو سستی بجلی مل سکے۔ بجٹ تقریر میں اس سے متعلق اعلان ہونا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جو انڈسٹری پہلے سے ٹیکس نیٹ میں ہے، ان پر ہی بجٹ میں مزید ٹیکسز لگائے جاتے ہیں۔ ٹیکس ریٹ کی بجائے ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے نئی صنعتوں خصوصی طور پر زراعت کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے سے متعلق پالیسی اس بجٹ میں پیش کی جانی چاہیے۔‘
چیئرمین پاکستان فارماسوٹیکل مینوفکچرز ایسوسی ایشن کے صدر میاں خالد مصباح رحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت ادویات پر 10 سے 18 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو فارماسوٹیکل کمپنیوں کا فائدہ ہو جائے گا مگر عوام پر مزید بوجھ پڑ جائے گا۔
’پوری دنیا میں ادویات سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہیں یا بہت کم ٹیکس ہوتا ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ ادویات پر مزید ٹیکس لگانے سے گریز کرے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے ٹیکس لگتے رہے ہیں جو عوامی دباؤ میں آکر بعدازاں واپس لیے گئے۔‘
پاکستان سوفٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین ذوہیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نئے بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر پر خصوصی توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ ملکی زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کا سب سے آسان، تیز اور سستا ذریعہ ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ آئی ٹی سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس ریٹ کم کرے۔‘
ذوہیب خان کے مطابق اس سہولت سے آئی ٹی کمپنیاں اپنے آفسز دبئی کی بجائے پاکستان میں کھولنے کو ترجیح دیں گی۔آئی ٹی سیکٹر کی تنخواہوں پر 35 فیصد تک ٹیکس کٹوتی سے ایف بی آر کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ رہا ہے۔ آئی ٹی ملازمین خود کو فری لانسر ظاہر کر کے صرف 0.25 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
’اگر آئی ٹی سیکٹرکی تنخواہوں پر فلیٹ پانچ فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو اس سے ٹیکس آمدن بھی بڑھے گی اور کاروبار بھی زیادہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بجٹ میں سٹیٹ بینک کو پابند کیا جائے کہ بیرون ملک انٹرنیٹ کے ذریعے ڈالرز کی ادائیگی اور وصولی کی سہولت فراہم کرے۔ اس کے وعدے تو کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک عمل نہیں ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی سرکار تمام دعوؤں اور محنت کے باوجود ایک سال میں دو ارب ڈالرز سے بھی کم بیرونی سرمایہ کاری کا انتظام کر پاتی ہے۔ اس کی وجہ کاروبار کرنے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر کا نہ ہونا اور کمائے گئے ڈالرز کو ملک سے باہر لے جانے میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔ جب بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو ملک کی آمدن کیسے بڑھے گی۔ بجٹ میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے قابل عمل پالیسیز متعارف کروائی جائیں۔‘
ٹاپ لائن سکیورٹیرز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ سنیل کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اطلاعات ہیں کہ حکومت بجٹ میں ڈیویڈنڈ انکم اور کیپیٹل گین پر ٹیکس بڑھانے جارہی ہے۔ اس سے مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج صرف خبر آنے سے سٹاک مارکیٹ گر گئی ہے۔ سرکار کو یہ ٹیکسز ختم کرنے چاہییں۔ اگر حکومت یہ ٹیکسز نہیں لگاتی تو سٹاک ایکسچینج پہلے کی طرح بہتر پرفارم کرتی رہے گی۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایکسچینج کمپنیاں سالانہ تقریباً چھ ارب ڈالرز ملک میں لاتی ہیں۔ لیکن ان کی کاوشوں کو سراہا نہیں جا رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بجٹ میں کرنسی ایکسچینج کو ایکسپورٹ انڈسٹری کا درجہ دے۔ پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو میں بینکس شامل ہیں۔ اس میں ایسکچینج کمپنیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ ایکسچینج کمپنیوں کی آمدن پر نت نئے سیلز ٹیکس، ایف ای ڈی لگائے جارہے ہیں اس سے اخراجات بڑھتے ہیں۔ اگر مزید ٹیکسز لگے تو ڈالر مہنگا ہوسکتا ہے۔‘
ان کے مطابق، ’پاکستان میں ڈالرز کمانے کے مواقع اور ماحول نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے 23 کروڑ پاکستانی ایک سال میں صرف 30 ارب ڈالرز کماتے ہیں جبکہ بیرون ملک رہنے والے تقریباً صرف ایک کروڑ پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز کما کر پاکستان بھیج دیتے ہیں۔
’اس لیے بجٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے خصوصی مراعات اور پیکجز پیش کیے جانے چاہیے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ ملک کی ترقی میں مزید بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایکسپورٹرز کو 30 سے 35 فیصد مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر بجٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو صرف پانچ فیصد ڈسکاؤنٹ دے دیا جائے تو دو سال میں ترسیلات زر تین گنا بڑھ سکتی ہیں۔‘
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔