ماہرین معیشت اور معاشی تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں ادویات، بجلی، پیٹرول اور پینشنز پر ٹیکسز لگنے کی توقع ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت مالی سال 2024-25 کا بجٹ جون میں پیش کرنے جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض کے نئے پیکج کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں۔
اس وقت یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام کن شرائط کے ساتھ آئے گا اور اس کا پاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔
آئندہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ کے حوالے سے ماہر معیشت عابد سلہری اور سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے ساتھ انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی نشست ہوئی جس میں معیشت کے مختلف پہلوں پر بات کی گئی۔
کیا مہنگائی میں کمی مستقل نظر آئے گی؟
ستمبر 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جو کہ اپریل 2024 میں کم ہو کر 17 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سوال یہاں یہ کہ مہنگائی میں کمی کیوں ہوئی اور کیا اس میں مزید کمی بھی ہو گی؟
اس پر ماہر معاشیات عابد سلہری کا کہنا تھا کہ ’ایک تو واقعتاً مہنگائی میں کمی ہوئی ہے دوسرا یہ کہ اگر موازنہ مہنگائی کی ایک بڑی شرح سے کیا جائے تو یقینا کمی نظر آتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر میں مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی یہاں تک کہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھے، گو کہ آئی ایم ایف کا اس وقت پروگرام آ چکا تھا مگر ڈالر بلیک مارکیٹ میں 350 روپے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ عابر سلہری کی رائے کے مطابق معیشت کے باقی مسائل بھی اس وقت اکٹھے ہو گئے تھے سو اگر اس وقت سے آج کا موازنہ کیا جائے تو یقینا صورت حال بہتر ہے۔
مہنگائی میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے مہتاب حیدر نے کہا کہ بنیادی طور پر مہنگائی میں جو کمی آ رہی ہے وہ عام آدمی کو اتنی محسوس نہیں ہو رہی ہو گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ’مہنگائی میں کمی کے جو عوامل ہیں ایک تو ایکسچینج ریٹ پر ایس آئی ایف سی ہے، جو ملٹری انٹیلی جنس اور باقی ایجنسیز نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ جو قیاس تھی اسے روکنے میں مدد ملی ہے اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام آیا ہے، کیا اسے برقرار رکھا جا سکے گا یا نہیں یہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔‘
مہتاب حیدر کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا عالمی منڈی میں جو مختلف اشیا کی قیمتوں میں بہتری آئی ہے اس کے علاوہ اگر ہم زراعت کے شعبے میں ترقی دیکھیں جہاں ترقی گذشتہ برس منفی تھی مگر رواں برس مثبت ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر زراعت کے شعبے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
مہتاب حیدر کی رائے تھی کہ اگلے سال کی پاکستان کی گروتھ انڈسٹریز اور سروسز سیکٹر پر منحصر ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سال جو کسانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اگلے سال مجھے ایگری کلچر سیکٹر کی گروتھ پر سیریس سوالات ہیں۔ خاص طور پر جو آپ نے اپنے کسان کو رول دیا ہے، یہ بہت بڑا رسک ہے اور یہ مہنگائی کے لیے بھی بہت بڑا رسک ہو گا۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی اثرات ہوں گے۔‘
مہنگائی میں کمی سے متعلق مہتاب حیدر نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے حکومت کی بھی یہ توقع ہے کہ یہ بتدریج کم ہو گی زیادہ تیزی سے نہیں۔
کیا ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا؟
پاکستان میں ڈالر کی قدر اس وقت 280 کے قریب ہے جوکہ گذشتہ برس 330 سے بھی تجاوز کر گئی تھی مگر کیا اس میں ٹھہراو مستقل ہے کہ نہیں؟
اس معاملے پر عابد سلہری کی رائے تھی کہ ’فی الحال ہم نے برآمدات کافی حد تک کم کی ہوئی ہیں سو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ایک شرط یہ بھی ہو گی کہ ہم مارکیٹ سے ایسی ساری پابندیوں کا خاتمہ کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پابندیاں ختم ہونے سے برآمدات بڑھیں گی جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو گا اور اگر اس وقت سپلائز نا آ رہی ہوں تو ڈالر کا ریٹ اوپر جا سکتا ہے۔‘
عابد سلہری کی رائے ہے کہ ڈالر کا ریٹ آپ کو اس لیے یہاں نظر آ رہا ہے کہ برآمدات رکی ہوئی ہیں اور جب یہ کھولی جائیں گی تو ڈالر کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔
مالی سال 2024-25 کے لیے محصولات کا ہدف
گذشتہ بجٹ میں محصولات کا ہدف نو ہزار 415 ارب روپے رکھا تھا مگر اس بار اطلاعات کے مطابق یہ ہدف 12 ہزار ارب روہے زائد رکھا جا سکتا ہے۔
ٹیکسز کے حصول کے حوالے سے مہتاب حیدر نے دعویٰ کیا کہ اس سال کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مہتاب حیدر نے بتایا کہ ایک لاکھ روپے سے زائد پینشن، ادویات، پٹرول اور تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔