کیا توانائی کے شعبے کا معیشت کو ڈبونے میں بڑا کردار ہے؟

ایک طرف بجلی مہنگی ترین ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ جانے اور انجانے ٹیکسوں کی حد بجلی کی قیمت سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

کراچی میں 17 مئی، 2018 کو ایک بازار میں دکان دار لوڈ شیڈنگ کے دوران اپنی دکان پر بیٹھا ہے (اے ایف پی)

نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ملک میں گرمی کی شدید لہر کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے پہاڑوں پر وہ برف تیزی سے پگھلے گی جو اس سال اپریل تک پڑتی رہی، اس سے سیلاب کا بھی خدشہ ہے۔

پاکستان میں حالیہ سالوں میں اوسط درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا۔ موسموں کے بدلنے سے پاکستانی معیشت کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

درجہ حرارت بڑھنے کا فوری اثر یہ ہوا کہ ملک بھر میں لوڈشیڈنگ شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی مکمل صلاحیت 46 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ گرمیوں میں اس کی زیادہ سے زیادہ مانگ 31 ہزار میگا واٹ تک رہتی ہے۔

پاکستان کے پاس جب ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی سہولت موجود ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کیوں ہوتی ہے؟ جو کمپنیاں بجلی پیدا کیے بغیر عوام کی جیبوں سے پیسے نکال رہی ہیں ان کے پاس کیا دلیل ہے؟

جب آپ ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں تو آپ اعدادو شمار کے ایک گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ۔

ایک طرف بجلی مہنگی ترین ہے تو اس پر طرہ یہ کہ اس کے ساتھ جانے اور انجانے ٹیکسوں کی حد بجلی کی قیمت سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جس کا اثر پورے ملک کی معاشی گراوٹ کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توانائی کا شعبہ ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا ہے۔

2007 سے 2020 کے دوران توانائی کے شعبے نے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا اس کا تخمینہ 82 ارب ڈالر لگایا گیا جس سے فی کس قومی پیدوار میں 23 فیصد کمی ہوئی۔  

بیروزگاری بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہوا۔ اکنامک افیئر ڈویژن کے مطابق پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا مجموعی حجم 86.35 ارب ڈالر ہے۔

گویا جتنے قرضے پاکستان پر چڑھے تقریباً اتنا ہی نقصان توانائی کے شعبے نے پاکستان کو صرف 13 سالوں میں پہنچایا۔

ماہر معیشت اور قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے بتایا کہ توانائی کا بحران ملک میں ترقی کی راہ کو مسدود کر چکا۔

ان کا کہنا تھا کہ لاگت اتنی بڑھ چکی کہ برآمد کنندگان کے لیے اب ممکن نہیں کہ وہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں، پیداواری لاگت کا ایک اثر جہاں صنعتی شعبے پر پڑا وہیں زرعی شعبے میں بھی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوا گیا۔

’ملک کی ایک بڑی آبادی کو، جوخط غربت سے نیچے جا چکی ہے، دو وقت کا کھانا میسر نہیں رہا۔ کسان کے پاس کبھی بیج خریدنے کے پیسے نہیں تو کبھی کھاد۔‘

حیرت ہے کہ جو مسئلہ تمام مسائل کی جڑ ہے اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ پاور کمپنیوں کے گردشی قرضے بڑھ کر 5500 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

بجلی اتنی مہنگی ہے کہ اس کی کھپت مسلسل کم ہو رہی ہے جبکہ حکومت مزید مہنگے منصوبے شروع کرتی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ جن شرائط پر 90 کی دہائی میں معاہدے کیے گئے تھے انہی شرائط پر آج بھی کیے جا رہے ہیں۔

’تب ہمارے پاس بارہ، بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی جبکہ آج پہلے ہی بجلی  وافر ہے اور پھر متبادل توانائی کے ذرائع بھی بڑھ رہے ہیں۔

’حکومت متبادل توانائی کے فروغ سے سستی بجلی کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتی؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ تاہم یہ قیاس ضرور کر سکتا ہوں کہ توانائی کے بحران سے ملک ڈوب رہا ہے۔‘

معاشی تجزیہ کار اور صحافی مہتاب حیدر کے مطابق پاور سیکٹر ملک کو ڈبو چکا ہے مگر اس کے مراعات یافتہ اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ اس شعبے میں اصلاحات نہیں چاہتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے اندر چوری اور بدانتظامی کے درست اعداد وشمار قوم کے سامنے کبھی نہیں لائے گئے جو درحقیقت پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ اس وقت پاکستان کے جوڑوں میں بیٹھنا شروع ہوا جب 90 کی دہائی میں عالمی بینک کے کہنے پر ہم نے واپڈا کو توڑ کر بجلی تقسیم کرنے اور بنانے والی کمپنیاں بنائیں۔

’بجلی کی ترسیل کا الگ ادارہ بنایا۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں سب کو نجی شعبے کے حوالے کرنا تھا مگر یہ کام نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے ان لوگوں کے مفادات پر زد پڑتی جو اس کے مراعات یافتہ ہیں۔

’اب نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ صرف اس ایک شعبے نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا جو پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کے برابر ہے۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ جو بات آج ایشیائی ترقیاتی بینک کہہ رہا ہے وہ میں 2001 سے کہہ رہا ہوں کہ توانائی کا شعبہ ملک کو مصیبت کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

’آج جب ملک بند گلی میں پھنس گیا ہے تو ہر کوئی یہ بات کہہ رہا ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ توانائی کے شعبے سے مال بنا رہے ہیں وہ ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔

’مشرف سے لے کر آج تک کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جس میں یہ لوگ شامل نہیں ہوتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب روز میٹنگز ہو رہی ہیں کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے مگر جب وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاور کمپنیوں کا نقصان بھی نہ ہو تو پھر کیا ملک کا نقصان ہونے دیں؟

’زراعت، صنعت اور کاروبار اس وجہ سے تباہ ہیں کہ بجلی بہت مہنگی ہے، مگر وہ لوگ جنہوں نے ان پر ہاتھ ڈالنا ہے ان کے مفادات پاور سیکٹر سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے صرف قوم کو مہنگی ترین بجلی ہی نہیں دی جا رہی بلکہ اس بجلی کا بھی بل لیا جا رہا ہے جو وہ استعمال ہی نہیں کرتی۔

’جن کے بل ہی نہیں آتے وہ کیوں چاہیں گے یہ نظام بدلے؟ ملک تباہ ہوتا ہے تو ہو۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ