حالیہ برسوں میں برطانوی ووٹروں کے متعلق یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ کس جماعت کو ووٹ دیں گے کیوں کہ 2015 اور 2017 کے انتخابات میں ووٹروں کی ریکارڈ تعداد نے اپنی پارٹی تبدیل کیں۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔
اگر یہ سمجھ لیں کہ فیصلے کرتے وقت لوگوں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، تو ہمیں یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کچھ سیاسی پیغامات انہیں کیوں بھاتے ہیں اور وہ اپنی پارٹی کیوں تبدیل کر سکتے ہیں۔
سیاسیات کے ماہرین ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں جسے ’پیڈرسن کا اتار چڑھاؤ‘ (Pedersen volatility) کہا جاتا ہے، اس کا نام ڈنمارکے کے معروف سکالر موگنز این پیڈرسن کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اس کی تعریف یہ ہے: ’انفرادی ووٹوں کی تبدیلی کی وجہ سے انتخابی جماعتی نظام میں خالص تبدیلی۔ اس عمل کے ایک پیچیدہ ریاضیاتی مساوات موجود ہے۔
سادہ الفاظ میں، اتار چڑھاؤ صرف ان لوگوں کی تعداد ہے جو انتخابات میں پارٹی تبدیل کرتے ہیں۔ 1960 کی دہائی کے آخر میں برطانیہ میں پیڈرسن انڈیکس صرف 10 فیصد کے قریب تھا، اب یہ 40 فیصد کے قریب ہے۔
سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور انتخابی نتائج پر اس کے اثر و رسوخ کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے۔
سوئٹزرلینڈ الیکشن کے ایک ماہر پروفیسر ہانز پیٹر کریسی نے ایک حالیہ تحقیق میں بتایا ہے کہ ’دلائل اور ووٹنگ کے اشاروں کا ایک مستقل سلسلہ رائے دہندگان کو ان کی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘
ممکن ہے یہ سچ ہو، لیکن ایک حالیہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ سیاست دان انتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا پر زیادہ پوسٹ کرتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر پالیسی مواد والی پوسٹوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔
ووٹ دینے والا دماغ
الیکشن کے مطالعات میں زیادہ دلچسپ پیش رفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اب ہم ووٹنگ کے طرز عمل کو سمجھنے کے لیے سوشل نیورو سائنس کے طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔
گذشتہ دہائی میں نیورو سائنس نے ہمیں دماغ کے ان حصوں کی نشاندہی کرنے کے قابل بنایا ہے جو سیاسی اشتہارات دیکھتے وقت فعال ہو جاتے ہیں۔
ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابی مہموں میں اکثر لوگ عقلی دلیل کے بجائے خوف اور جذبات سے متاثر ہوتے ہیں۔
عملی طور پر، اس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرز ایسے پیغامات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو مثبت پہلوؤں کے بجائے منفی کو اجاگر کرتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا ہے کہ مصنوعات کے بارے میں منفی تصاویر اور بیانات کے نتیجے میں دماغ کے ایک حصے ڈورسولٹرل پریفرنٹل کورٹیکس میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔ یہ حصہ فیصلہ سازی سے بھی وابستہ ہے۔
مثال کے طور پر، سوڈا کے برانڈ کے بارے میں منفی معلومات کی وجہ سے امکان ہے کہ لوگ مسابقتی برانڈ زیادہ خریدیں گے۔
تاہم جب یہ تجربات سافٹ ڈرنکس کے بجائے سیاسی جماعتوں کے معاملے میں کیے گئے تو ان کا منفی اثر تین گنا زیادہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منفی سیاسی اشتہارات کام کرتے ہیں، اور اب ہمارے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے ایف ایم آر آئی سکین ہیں۔
سیاست ایک دوبدو جنگ ہے جس کے اندر سیاست دان کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اور ہمارے دماغ اس کے مطابق رد عمل دیتے ہیں۔ انسان کے ارتقا کے دوران بقا کی جبلت نے ہمیں اپنے تحفظ کو ترجیح دینا سکھایا ہے، خاص طور پر جب ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے خوف اور غصے پر کھیل کر انتخابی نعرے بنانے والے شاید جان بوجھ کر ایسے پیغامات دے رہے ہیں جو دماغ کے ان حصوں کو متحرک کرتے ہیں جن سے انتقام اور غصہ سے منسلک ہوتا ہے، جس میں دماغ کا انٹیریئر سنگولیٹ کارٹیکس (یا اے سی سی) کہلانے والا حصہ بھی شامل ہے، جو دونوں دماغی نصف کرہ کو الگ کرنے والی دراڑ کے اگلے حصے کے اندر گہرائی میں واقع ہے۔
لہٰذا، اگر مجھے غصہ ہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے برطانوی ادارۂ صحت این ایچ ایس میں مریضوں کی اپائنٹمنٹ کا وقت کم نہیں کیا تو امکان ہے کہ اے سی سی بہت زیادہ فعال ہے۔
یہاں عمر رسیدہ افراد خاص طور پر دلچسپ ہیں جو بڑی تعداد میں ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے اندر نام نہاد ڈورسولیٹرل پری فرنٹل کارٹیکس فعال ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ احتیاط سے وابستہ ہے۔
اس بات کا امکان نہیں کہ رشی سونک نے نیورو پولیٹیکس کے باریک نکات پر غور کیا ہو لیکن ان کی حکمت عملی اس سے مطابقت رکھتی ہے جو ہم سوشل نیورو سائنس سے جانتے ہیں۔
انہوں نے ’منصوبے پر ڈٹے رہنے‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حزب اختلاف کی اپیلوں پر داؤ نہ کھیلنے کی ضرورت پر زور دیا، جو ان لوگوں کے لیے پرکشش ہے جن کا ڈورسولٹرل پریفرنٹل کورٹیس انتہائی حساس ہوتا ہے– یعنی عمر رسیدہ ووٹر گروپ جسے انہیں قائل کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
لیکن زیادہ وسیع پیمانے پر، ہر عمر کے لوگوں میں امیگڈلا کو فعال کرنے کا ایک مضبوط رجحان ہے۔ امیگڈلا دماغ کا وہ حصہ ہے جو خوف سے وابستہ ہے۔ ہم صرف شاذ و نادر ہی اخلاقی تشخیص سے وابستہ دماغ کے حصوں کو فعال کرتے ہیں جیساکہ وینٹرومیڈیئل پری فرنٹل کورٹیکس کہلانے والا حصہ۔
اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ برطانوی انتخابات میں دو اہم جماعتیں خوف اور احتیاط پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔
شاید اٹلی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مفکر نیکولو میکاولی نے اسے صحیح سمجھا جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ رائے دہندگان ’خطرے سے بچنے‘ کا رحجان رکھتے ہیں۔
ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ رشی سونک اس خوف کو جگاتے ہوئے بار بار بہت ہی غیر واضح انداز میں خبردار کرتے ہیں کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ ’خطرناک‘ ہے۔
دونوں جماعتیں پالیسیوں کو ’ٹرپل لاک‘ کے طور پر لیبل کر رہی ہیں، چاہے وہ پنشن پر ہو یا نیوکلیئر ڈیٹرنٹ، یہ جانتے ہوئے کہ رائے دہندگان حفاظت کے وعدوں پر رد عمل دیتے ہیں۔
معاشی ووٹنگ کا دور
علمی تحقیق کا ایک اور شعبہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ ووٹرز اپنی رائے کیوں بدلتے ہیں، خاص طور پر 1970 کی دہائی یا اس کے بعد سے رائے دہندگان اپنے فیصلے میکرو اکنامک کارکردگی کی بنیاد پر کرنے کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ لہٰذا، ان سیاسی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جن کے دور میں اہم مالی بحران آئے۔
اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کنزرویٹو 1992 میں اور لیبر 1979 میں کیوں ہار گئے تھے۔ رائے دہندگان حالیہ معاشی کارکردگی کی بنیاد پر بھی اپنی رائے تبدیل کرتے ہیں، بھلے ہی معاشی بحران حکومت کے قابو سے باہر ہو، جیسا کہ سابق قدامت پسند وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے معاملے میں ہوا تھا، جو 1973 کے تیل کے بحران (مشرق وسطیٰ میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے) کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے تھے۔
ایک بار جب کسی حکومت کے ساتھ معاشی خرابیاں جڑ جاتی ہے، مثال کے طور پر اشیا گروی رکھنے کی شرح میں اضافہ، روز مرہ ضروریات کی لاگت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں، تو معیشت کی بحالی کے باوجود انہیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
موجودہ برطانوی حکومت کا یہ نعرہ کہ یہ منصوبہ کام کر رہا ہے معاشی طور پر درست ہو سکتا ہے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ رائے دہندگان کو پارٹیاں تبدیل کرنے سے نہیں روک سکتا۔________________________________________
-اس تحریر کے مصنف میٹ کوورٹرپ برطانیہ کی کوونٹری یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔