پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ہفتے کو نئی سیاسی جماعت ’عوام پاکستان‘ کے قیام کا باظابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’عوام پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی جماعت نہیں اور نہ ہی روایتی سیاسی جماعت ہے۔‘
انہوں نے اسلام آباد میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اپنی نئی جماعت کے حوالے سے کہا کہ اس میں ’عوامی شہرت اور قابلیت رکھنے والا‘ ہر فرد شامل ہو سکے گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق سینیئر نائب صدر اور عوام پاکستان کے مرکزی کنوینر شاہد خاقان عباس نے کہا کہ ان کی پارٹی کو ہر حالت میں اقتدار نہیں چاہیے۔ ’جماعت میں شامل لوگ ملک کو کچھ دینے والے ہوں گے۔‘
شاہد خاقان عباسی کے خیال میں ملک کے حکمرانوں کو قوم کی تکلیفوں کا احساس نہیں۔ ’دودھ جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کا ایک فیصد شعبہ صحت پر خرچ ہو رہا ہے، جب کہ ملکی برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔
عباسی نے آٹھ فروری کے عام انتخابات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ملکی حالات اس حد تک خراب ہوں گے۔
’پارلیمان میں بیٹھے اراکین اسمبلی کی اکثریت الیکشن ہاری ہوئی ہے۔ الیکٹیبلز ملکی سیاست کا حصہ ہیں اور ہر الیکٹیبل قابل قبول نہیں۔‘
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا: ’ہم کوئی بھی ہوں، وزیر اعظم، آرمی چیف، جج یا کوئی بھی۔ سب اس ملک کے آئین کے تابع ہیں۔ ہر ادارہ آئین کے تابع ہے۔
’ہم احتساب کی بات کرتے ہیں مگر احتساب ان کا ہونا چاہیے، جو ٹیکس لگاتے ہیں مگر ٹیکس دیتے نہیں۔‘
عوام پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل مفتاح اسماعیل نے اس موقعے پر اپنی گفتگو کا آغاز ایک سوال سے کیا: ’آج پاکستان کا بچہ بھوکا سو رہا ہے۔ اگر یہ ملک غریب رہے تو کیا یہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’یہاں 40 فیصد بچہ ذہنی اور جسمانی کمزور ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہاں بہت سے تیسری دنیا کے ممالک ہم سے آگے ہیں وہیں ہم سوڈان سے بھی پیچھے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سیاست کو صرف سیاست دانوں، ججز اور جرنیلوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ’عوام کو سیاست میں آنا ہوگا۔‘
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے علاوہ ہم خطے کے ہر ملک سے پیچھے رہ گئے ہیں، جب کہ 1994۔95 میں ہم اپنے پڑوسی ممالک میں سب سے آگے تھے۔‘
مفتاح اسماعیل نے حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے سالانہ بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نوکر پیشہ لوگوں اور ایک لاکھ اور 75 ہزار کمانے والے کے ٹیکس دو گنا کر دیے گئے ہیں۔
’اراکین اسمبلی کے لیے آپ نے 75 ارب رکھ دیے۔ یہ حکومت کیا ایسٹ انڈیا کمپنی چلا رہی ہے؟‘
مفتاح نے آپریشن عزم استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’آج ہم ایک اور آپریشن عزم استحکام کرنے جا رہے ہیں، ان آپریشنز کی بار بار ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کیونکہ آپ غربت کو ختم نہیں کر سکتے۔‘