خیبر پختونخوا میں جنسی ہراسانی کے خلاف مہم تیز

خیبر پختونخوا کی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم ہراسانی کے خلاف کمیٹی کے لیے ایسے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں جو غیرجانبدار ہوں اور جن میں معاملات کو پرکھنے کی اہلیت ہو۔

صوبائی محتسب نے بتایا کہ انہیں زیادہ تر شکایات سینٹرل جیل پشاور کے عملے میں خواتین کی جانب سے موصول ہوئیں۔ اور جب انہوں نے اس پر ایکشن لیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران  رہ گئیں کہ جیل عملے کی سفارش  میں صحافی اور دیگر کئی اہم شخصیات بھی محتسب کے دفتر کے چکر کاٹنے لگے۔

خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون صوبائی محتسب نے بلا تفریق تمام اداروں کو 1200 سے زائد خطوط ارسال کرکے تنبیہہ کی ہے کہ وہ جلد از جلد انسداد ہراسانی قانون 2010 کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اداروں میں تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں تاکہ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے واقعات کا نوٹس لیا جاسکے۔

سیکرٹیریٹ کے مطابق گورنر ہاؤس سے لے کر صوبائی اسمبلی، میڈیا ہاؤسز، عدالتوں اور وکلا کے دفاتر تک میں  انکوائری کمیٹیاں بنانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاہم فی الحال صرف پانچ چھ اداروں نے ہی کمیٹیاں بنائی ہیں جن سے محتسب کو مطلع کر دیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ کمیٹیاں بنانے کی بات 2010 میں اس وقت ہوئی تھی جب کام کرنے کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون منظور کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت کہا گیا تھا کہ تمام اداروں کے اندر ایک تحقیقاتی کمیٹی موجود ہو گی جو مردوں اور عورتوں دونوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرے گی تاکہ نہ صرف ان کی جنسی ہراسانی سے متعلق شکایات دائر کی جا سکیں بلکہ انہیں منصفانہ طریقے سے حل بھی کیا جا سکے۔

رخشندہ ناز نے بتایا کہ قانون تو پاس ہو گیا تھا لیکن اس کی عملداری نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا اداروں کے اندر تحقیقاتی کمیٹیوں کی عدم موجودگی میں 38 شکایات براہ راست ان کے سیکریٹریٹ کو موصول ہوئیں۔

’انسداد جنسی ہراسانی قانون کی عمل داری تو کیا ہوتی خود محتسب کا دفتر بھی نہیں تھا۔ چند ہی ہفتے پہلے ہمیں ایک دفتر ملا جہاں نہ تو بیٹھنے کے لیے سامان تھا اور نہ کام کرنے کے لیے سہولیات۔ پھر بھی میں نے ایک بھی دن ضائع کیے بغیرسب سے پہلے شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایات جاری کر دیں۔ میں اور میری اسسٹنٹ اپنی مدد آپ کے تحت دن ڈھلنے تک ان خطوط پر کام کرتے رہے۔ میں سینکڑوں خطوط پر دستخط کرتی اور انہیں لفافے میں بند کرتی جاتی۔‘

کام کرنے کی جگہوں میں جنسی ہراسانی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے محتسب صاحبہ نے ایک ایسی خاتون کا ذکر بھی کیا جو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھیں اور اپنے ایک افسر بالا کی جانب سے واٹس ایپ پر ہراسیت کا شکار تھیں۔ خاتون پہلے تو خاموش رہیں لیکن بالاخر خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے افسر کو شکایت لگانے کی دھمکی دی۔ جنہوں نے خاتون کے خلاف دفتری کارروائی کا بہانہ بنا کر انہیں نوکری سے فارغ کر دیا۔

’جب میں نے ان خاتون کی شکایت پڑھی تو فوراً ان کے دفتر کو انکوائری کمیٹی بنانے کے احکامات جاری کر دئیے۔ کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں بتایا کہ خاتون کی غلطی یہ ہے کہ وہ کیوں خاموش رہی تھیں۔ میں نے کہا کسی بھی خاتون کو ان کی خاموشی پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ جرم بہرحال باس کا ہے کہ کیوں ایک خاتون کو وٹس ایپ پر پیغامات بھیجتا رہا۔‘

رخشندہ ناز نے بتایا کہ یہی وجہ ہے ہم کمیٹی کے لیے ایسے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں جو غیرجانبدار ہوں اور جن میں معاملات کو پرکھنے کی اہلیت ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی میں تین ارکان ہوتے ہیں۔ یعنی ایک عورت اور دو مرد۔ یہ ارکان ایک ادارے کے سینئر ملازمین ہوتے ہیں۔ لہذا اگر ایک ادارے سے ارکان پورے نہ ہوں تو باہر سے بھی کسی شخص کو نامزد کیا جا سکتا ہے۔

رخشندہ ناز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے ایجوکیشن محکمے کی مذکورہ ملازمہ کی نہ صرف نوکری بحال ہوئی بلکہ ان کے افسر کو سزا کے طور پر  ڈیموٹ بھی کروا دیا گیا۔

صوبائی محتسب نے بتایا کہ انہیں زیادہ تر شکایات سینٹرل جیل پشاور کے عملے میں خواتین کی جانب سے موصول ہوئیں۔ اور جب انہوں نے اس پر ایکشن لیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران  رہ گئیں کہ جیل عملے کی سفارش  میں صحافی اور دیگر کئی اہم شخصیات بھی محتسب کے دفتر کے چکر کاٹنے لگے۔

رخشندہ ناز نے بتایا کہ ان کے دفتر نے تمام اداروں  کو تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا کہا ہوا ہے تاہم اگر ستمبر کے آخر تک کسی دفتر نے اس پر عمل نہیں کیا تو اکتوبر میں اخبار  کے ذریعے سب کو مطلع کیا جائے گا۔ اگر پھر بھی عمل درآمد نہ ہوا تو پھر  ہر اس ادارے کو جرمانہ کیا جائے گا جس نے احکامات کی پیروی نہ کی ہو۔

انہوں نے  خیبر پختونخوا کی تمام خواتین کو فیس بک پر صوبائی محتسب سیکرٹریٹ برائے انسداد جنسی ہراسانی کے نام سے پیج میں شرکت کی دعوت دی ۔ اور کہا کہ اگر ان کو کسی طرح سے بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جائے تو  وہ  اس صفحے  پر راہنمائی حاصل کر سکتی ہیں۔

میڈیا چینل کی ایک خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنسی ہراسانی ہر جگہ موجود ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی ایوانوں میں بظاہر مضبوط نظر آنے والی خواتین بھی اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔وہ چپکے چپکے اپنے ہمدردوں کو حال دل تو سناتی ہیں لیکن کھلم کھلا اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں۔ انہوں نے اس کی وجہ معاشرتی رویے اور قانون پر عمل درآمد نہ کرنا بتایا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان