آج سے ٹھیک 30 برس قبل 1994 کا سال پاکستانی کھیلوں کی تاریخ کا ایسا سال ہے جس کی مثال نہ اس سے پہلے ملتی ہے اور نہ ہی بعد میں۔ اس سال پاکستان ایک دو نہیں، پورے چار کھیلوں کا عالمی چیمپیئن تھا۔ ان کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر شامل ہیں۔ آج ہم آپ کو ان میں سے ایک چیمپیئن ہاکی ٹیم کے سابق کپتان شہباز سینیئر سے ملا رہے ہیں جنہوں نے 1994 میں عالمی کپ جیتا تھا۔
1994 پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے والی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینیئر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے اور ہم نے کئی دہائیاں اس کھیل پر حکمرانی برقرار رکھی۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ناقابل تسخیر ٹیم مقابلوں کے لے کوالیفائی کرنے کے قابل بھی نہ رہی۔‘
اس زوال کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شہباز سینیئر نے کہا، ’ہاکی کی بدحالی کے اس 25،30 سالہ سفر میں سب سے بڑا کردار حکومت کی توجہ نہ ہونا اور کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کی عدم دلچسپی ہے۔ اس کے علاوہ ہاکی کی سکولوں کالجوں میں کھیلنے کی شرح کم ہوتی گئی اور نرسری نہ ہونے کے برابر ہو گئی۔
’دوسرے کھیلوں کی طرح ہاکی کے کھلاڑیوں کو سہولیات ملنا بند ہوئیں، جس سے نوجوانوں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے بھی اس کھیل کو اپنے مستقبل سے وابستہ نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہباز احمد نے کہا کہ ’ہاکی کا پیشن (جذبہ) پورے پاکستان میں اب نہیں ہے۔ چند علاقے رہ گئے ہیں جن میں پیر محلہ ہے، ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے، گوجرہ ہے، فیصل آباد ہے، کے پی کے چند علاقے ہیں جہاں ہاکی کھیلی جاتی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ان علاقوں سے ٹیلنٹ تلاش کریں۔‘
’دوسرے یہ کہ حکومت نے بھی کھیلوں کی طرف توجہ کم کر دی۔ فنڈز کم کر دیے، کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ نہ ملا، محکموں نے کھیلوں کے کوٹے پر بھرتیاں بند کر دیں۔‘
سابق ہاکی کپتان نے کہا کہ ’ان سب مشکلات کے علاوہ کوچز بھی دستیاب نہ ہوئے جس سے نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا دشوار رہا۔ ملک میں خوراک کا معیار مسلسل گرنے کے ساتھ فزیکل فٹنس بھی امتحان بنتی گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں دودھ تک خالص نہیں ملتا، جنک فوڈ اور بازاری کھانوں کا استعمال بڑھنے سے جسمانی طور پر کھلاڑیوں کا سٹیمنا بھی عالمی مقابلے تو کیا ایشیائی مقابلوں کے برابر نہیں رہا۔‘
شہباز سینیئر کا کہنا تھا کہ ’جدید آلات موبائل، لیب ٹاپ کے بےجا استعمال سے بھی بچوں کی جسمانی نشو و نما کا گراف بہت گر گیا۔ اس کے ساتھ ہاکی کے کھلاڑیوں کے لیے جدید تیکنیکس اور سہولیات کا فقدان بھی آڑے آیا۔ آسٹرو ٹرف اس پر کھیلنے کے لیے سپیشل جوتے اور تربیت کا نہ ہونا ٹیم کی کارکردگی کو نیچے لاتا گیا۔‘
شہباز سینیئر کے مطابق ’کوئی حکومت کوئی ادارہ ملک میں ہاکی کی بہتری کے لیے کام میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیا۔ اس رویے نے ہم جیسے سٹار پلیئرز کو بہت مایوس کیا۔ کہ جو پرچم ہم دنیا میں سب سے اوپر لہراتے رہے وہ آج کسی مقابلے میں کسی ہاتھ میں دکھائی نہیں دیتا۔‘
’14 اگست پاکستان کی یوم آزادی کا دن ہے اس سے وفاداری کے دعووں کی بجائے عملی طور پر عزم کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی بہتری کے لیے خودنمائی کو پس پشت ڈال کر اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کریں گے۔‘
پاکستان کی ہاکی کا عروج و زوال
پاکستان کے قیام سے ہی قومی کھیل کا درجہ ہاکی کو دیا گیا اور پاکستان کی ہاکی ٹیم نے ابتدا سے ہی ملکی حالات بہتر نہ ہونے کے باوجود اوائل مین اپنی صلاحیتیوں کا لوہا دنیا بھر میں منوایا۔
پاکستانی ہاکی ٹیم نے عالمی مقابلوں میں تین بار سب سے زیادہ ورلڈ کپ جیتے جبکہ ایشیا میں آٹھ بار ایشئین چیمپئن رہی۔
سب سے پہلا ورلڈ کپ پاکستان ہاکی ٹیم نے 1978، دوسرا 1980 اور پھر تیسری مرتبہ 1994میں اپنے نام کیا۔
اس کے علاوہ گرین شرٹس ورلڈ کپ مقابلوں میں سات بار فائنل ہاری اور سات ہی بار تیسرے نمبر پر رہی۔
ایشیا کپ میں آٹھویں بار ایشیئن چیمپئنز کا تاج پاکستان کے سر پر سجانے میں کامیاب رہی۔ ایشیائی مقابلوں میں پہلا کپ 1958پھر 1962،1970 اس کے بعد 1974پھر 1978اسی طرح 1982کے بعد 1990 اور 2001 مین آخری بار ان مقابلوں میں فاتح قرار پائی۔
یہ کسی بھی ٹیم کی ایشیائی کھیلوں میں سب سے اچھی کارکردگی ہے۔ دو بار فائنل ہاری اور تین بار تیسرے درجے پر آئی۔
ہمسائیہ ملک انڈیا صرف ایک بار ہاکی ورلڈ کپ جیت سکا ہے اسی طرح دنیا کی دیگر ٹیموں نے بھی پاکستانی شاہینوں کا راج کئی سالوں تک دیکھا۔
پاکستانی ہاکی ٹیم 1994میں اب تک آخری بار پاکی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد مسلسل نیچے کی طرف آتی رہی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دیگر عالمی یا ایشیائی مقابلوں کی طرح گذشتہ کئی سال سے اولمپکس مقابلوں میں شریک ہونے کے لیے بھی جگہ نہیں بنا پا رہی۔