کراچی کے علاقے کارساز میں رواں ہفتے ایک خاتون نے بےقابو گاڑی سے دو افراد کو کچل ڈالا۔ اس واقعے میں ایک باپ اور بیٹی زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ کم از کم چار افراد زخمی بھی ہوئے۔
واقعہ کے بعد ملک میں ایک بار پھر یہ بحث ہو رہی ہے کہ ایسی لاپروائی جس نے سڑک پر کسی جان لے لی ہو، کی قانونی طور پر کیا سزا ہو سکتی ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ ڈرائیونگ سے متعلق پاکستان میں کیا قوانین ہیں، ان قوانین کی رو سے کیا سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کا نفاذ کس حد تک ہوتا ہے اور ملزم کے بچ نکلنے کے کیا امکانات ہیں۔
تعزیرات پاکستان
تعزیرات پاکستان یا پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں جرائم کی باقاعدہ تعریف کے ساتھ سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
اس قانون کی دفعہ 320 کے مطابق اگر کوئی شخص لاپرواہی سے ڈرائیونگ کر رہا ہے اور اس دوران اس نے کسی فرد کو ٹکر ماری ہے، جس سے اس کی موت ہو جائے تو دفعہ 320 کا اطلاق ہو گا۔
دفعہ 320 کے مطابق اس جرم کے مجرم کو دیت دینا پڑتی ہے اور دس سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 337 جی میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد لاپروائی سے ڈرائیونگ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس نے کسی کو ٹکر مار دی ہے، جس سے اس شخص کی موت تو واقع نہیں ہوئی مگر اسے چوٹ آئی یا کوئی عضو ضائع ہو گیا تو اس صورت میں سزا پانچ سال کی جیل ہے۔
اس دفعہ میں جرمانے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
اسی قانون کی دفعہ 322 میں کہا گیا ہے کہ قتل بالسبب کی صورت میں قاتل کو دیت ادا کرنا ہو گی۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 279 کے تحت اگر کوئی شخص کسی عوامی مقام پر لاپرواہی سے ڈرائیونگ کر رہا ہے اور کسی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، چاہے اس سے کسی کو نقصان نہ پہنچا ہو، تب بھی پولیس اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر سکتی ہے اور دو ماہ سے دو سال تک کی سزا ہو سکتی ہے یا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
اس قانون میں ڈرائیونگ لائسنس ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم عام طور پر پولیس خود سے دفعہ 320 ایف آئی آر میں شامل کر دیتی ہے۔ دوران تفتیش یا دوران سماعت اگر مجرم اپنا ڈرائیونگ لائسنس پیش کر دیتا ہے تو پولیس اسے دفعہ 322 میں تبدیل کر دیتی ہے۔
پرووینشل موٹر وہیکل آرڈیننس 1965
اس قانون کے دوسرے باب کے مطابق بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ نہیں کی جا سکتی۔
پرووینشل موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے سیکشن 101 میں ذہنی یا جسمانی طور پر ڈرائیونگ کے لیے ان فٹ ہونے کا ذکر ہے، اس صورت میں بھی مجرم کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا بلکہ جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔
اسی قانون کے سیکشن 99 میں تحریر کیا گیا ہے کہ حد رفتار سے تیز ڈرائیو کرنے پر چھ ماہ تک سزا ہو سکتی ہیں اور جرمانہ بھی عائد ہوتا ہے، جب کہ ٹرانسپورٹ وہیکل کے لیے یہ سزا ایک سال کی مدت تک بڑھ سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیٹل ایکسیڈنٹ ایکٹ 1864
اس قانون کے تحت اگر کسی شخص کی موت کسی فرد کی غفلت، غلط قدم اٹھانے یا default کی وجہ سے واقع ہو جاتی ہے تو اس قانون کے تحت مقتول کے والدین، شوہر یا اہلیہ اور بچوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قتل کی صورت میں سول کورٹ میں کیس دائر کر کے ہرجانے کا مطالبہ کریں۔ عدالت ہرجانے کی رقم طے کرتی ہے اور لواحقین میں ہرجانہ برابر تقسیم کیا جاتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ڈرائیور کے ہاتھوں ہونے والی جرائم کی سزائیں اس لیے سخت نہیں کہ ایسے حادثات غیر ارادی قتل کے زمرے میں آتے ہیں یعنی ان میں جان بوجھ کر کسی کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
حال ہی میں ایسے قوانین بنے ہیں کہ کم عمری میں ڈرائیورنگ کرنے والوں کو روکا جائے۔ لیکن ٹریفک پولیس کے نقطۂ نظر سے سڑک پر گاڑی چلانے والے ہر شخص کو روک کر اس عمر اور ذہنی کیفیت کا تعین ممکن نہیں۔
اس لیے جان لیوا حادثات کے بعد کوئی نہ کوئی عذر بنا کر ڈرائیونگ کرنے والا یا والی سزا سے بچ نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹریفک حادثات میں ڈرائیور کے لیے سزائیں اس لیے سخت نہیں ہیں کہ ایسے حادثات غیر ارادی قتل کے زمرے میں آتے ہیں یعنی ان میں جان بوجھ کر کسی کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
حادثے میں کسی کی جان جانے کی صورت میں قانون میں گنجائش بھی موجود ہے کہ دیت یعنی خون بہا کی قیمت ادا کر کے بھی معافی مل سکتی ہے۔
دیت کی رقم کی مالیت بدلتی رہتی ہے اور حکومت ہر سال اس کا تعین کرتی ہے۔