خواتین ڈرائیونگ ٹیسٹ میں زیادہ فیل ہوتی ہیں: لاہور ٹریفک پولیس

لبرٹی پولیس خدمت مرکز کے انچارج انسپیکٹر عمران فراز کے مطابق زیادہ تر افراد کو مسئلہ گاڑی کو پیچھے لاتے ہوئے پیش آتا۔

آج کل لاہور میں بغیر لائسنس والے ڈرائیورز کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے اسی لیے پولیس خدمت مراکز پر لائسنس بنوانے والی عوام کا ہجوم اکھٹا رہتا ہے تاہم لائسنس کا ٹیسٹ دینے والوں کی بڑی تعداد فیل بھی ہو رہی ہے۔

لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان رانا عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’گذشتہ ایک ماہ میں 35 ہزار ڈرائیونگ ٹیسٹ ہوئے جن میں سے ٹیسٹ دینے والے 10 ہزار افراد فیل ہو گئے۔‘

پہلی بار ریگولر لائسنس بنوانے کے لیے دو ٹیسٹ دینے ہوتے ہیں ایک سائن ٹیسٹ اور دوسرا روڈ ٹیسٹ، اور دونوں میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔

لبرٹی پولیس خدمت مرکز کے انچارج انسپیکٹر عمران فراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ لبرٹی خدمت مرکز میں لوگوں کو کافی آسانی دی جا رہی ہے ’لیکن لوگ پھر بھی گاڑی پیچھے لاتے ہوئے فیل ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔‘

عمران کے مطابق: ’خواتین کو گاڑی پیچھے لاتے ہوئے بہت مسئلہ ہوتا ہے وہ گاڑی آگے تو لے جاتی ہیں لیکن پیچھے لاتے ہوئے انہیں بہت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹیسٹ میں فیل ہو جاتی ہیں اس لیے ان کو اپنا زیادہ دھیان گاڑی پیچھے لانے پر دینا چاہیے۔‘

انسپیکٹر عمران کہتے ہیں کہ ’ٹیسٹ تسلی سے دیں اس کو اپنے دماغ پر سوار نہ کریں۔ اگر ذہن پر سوار کر لیں گے تو فیل ہوجائیں گے۔‘

شاید یہی رباب خرم کے ساتھ بھی ہوا۔ رباب چار پانچ سال سے گاڑی چلا رہی ہیں لیکن چونکہ گھر پر ڈرائیور کی سہولت موجود ہے اس لیے یہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ہی گاڑی گھر سے خود نکالتی ہیں۔

رباب نے خرم لبرٹی خدمت مرکز میں روڈ ٹیسٹ دینے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے گاڑی چلائی لیکن وہی ہوا کہ پیچھے لاتے ہوئے وہ گڑبڑ کر گئیں اور ان کا روڈ ٹیسٹ فیل ہو گیا۔

رباب کا کہنا تھا کہ ’آج کل چوں کہ سختی ہے تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی لائسنس بنوا لینا چاہیے کیونکہ آپ ایمرجنسی میں تو نکلتے رہتے ہیں۔

’مجھے مسئلہ اس وقت یہ ہوا ہے کہ مجھے گاڑی پیچھے کرنے کا تھوڑا مسئلہ ہوتا ہے اور یہ شروع سے ہی ہے میں بہت تنگ جگہ پرگاڑی پیچھے نہیں لا سکتی۔ یہی مسئلہ ابھی بھی ہوا اور اسی وجہ سے میرا ٹیسٹ کلیئر نہیں ہو سکا۔‘

رباب کو اب دوبارہ روڈ ٹیسٹ دینے کے لیے یہاں 42 دن کے بعد واپس آنا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لبرٹی ڈرائیونگ سینٹر میں ہماری ملاقات عمر علی سے بھی ہوئی جنہیں ڈرایئونگ سیکھے ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے۔ یہ بھی ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔

’غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں گاڑی لے کر بھی صحیح آیا تھا واپسی پر کٹنگ بھی ٹھیک کر لی لیکن میرا سٹیرنگ قابو سے باہر ہو گیا اور گاڑی پیچھے کون کو جا ٹکرائی۔‘

لبرٹی خدمت مرکزکے انچارج عمران فراز کے مطابق، چوں کہ اب لرنر لائسنس تو آن لائن بنوایا جا سکتا ہے اس لیے اب مراکز پر زیادہ تر وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں ریگولر لائسنس چاہیے۔

’پہلے ہم ان کے ڈاکو منٹس بناتے ہیں اس کے بعد ان کا سائن ٹیسٹ ہوتا ہے جو ایک سسٹم کے تحت ہوتا ہے جسے انہیں کمپیوٹر پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ سائن ٹیسٹ پاس ہونے کے بعد ان کا روڈ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ ٹریک پر آتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ روڈ ٹیسٹ کے لیے بنایا گیا ٹریک ’ایل‘ (L) شکل کا بنایا گیا ہے۔

روڈ ٹیسٹ لینے والے وارڈنز ڈرایئور کو گاڑی چلانے سے پہلے ہدایت دیتے ہیں کہ انہوں نے گاڑی سیدھی لے جا کر ’ایل‘ کی صورت میں موڑنی ہے اور پھر اسی راستے پر گاڑی پیچھے لانی ہے۔

اس دوران گاڑی ٹریک کے دونوں اطراف میں لگی نارنجی رنگ کی کونز سے نہ ٹکرائے اور ایک موقع یہ دیا جاتا ہے کہ گاڑی پیچھے کرتے وقت وہ ایک بار گاڑی آگے لے جا کر سیدھی کر سکتے ہیں۔

روڈ ٹیسٹ کے لیے خدمت سینٹر یعنی ٹریفک پولیس کی فراہم کردہ گاڑی بھی استعمال ہو سکتی ہے جبکہ آپ اپنی ذاتی گاڑی پر بھی یہ ٹیسٹ دے سکتے ہیں۔

عمران فراز کے مطابق: ’ویسے تو ٹریک کی لمبائی 65 فٹ ہوتی ہے لیکن لبرٹی خدمت مرکز میں چونکہ ہمارے پاس جگہ کم ہے دوسرا ہم یہاں سی ٹی او کی ہدایت پر لوگوں کے لیے آسانی پیدا کر رہے ہیں اس لیے یہ ٹریک کافی چھوٹا اور چوڑا ہے۔‘

بقول عمران فراز یہ اس وقت لاہور کا آسان ترین ٹریک ہے اسی لیے زیادہ تر لوگ یہاں ٹیسٹ دینے کے لیے آتے ہیں تاکہ یہاں سے پاس ہو سکیں۔

’یہاں روڈ ٹیسٹ کی ویڈیو بنتی ہے جو اس لیے بنائی جاتی ہے تاکہ ریکارڈ رہ سکے اور کل کو کوئی آ کر یہ نہ کہے کہ وہ ٹیسٹ میں فیل نہیں پاس ہوا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان