بلوچستان کے مجسمہ ساز جو کسی بھی عالمی مقابلے کے لیے ’تیار ہیں‘

عزیز بلوچ غربت، افلاس، قحط سالی، اور خانہ بدوشوں کی زندگی کی مشکلات کو اپنے فن کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں، اور مجسمہ سازی میں ان کی مہارت عالمی درجے کی ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ عزیز بلوچ نے پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔

عزیر بنیادی طور پر مجسمہ سازی میں خاص مہارت رکھتے ہیں، ان کے بنائے گئے مجسمے بلوچستان کی شاہراہوں اور بازاروں سمیت دبئی کے مشہور چوراہوں میں بھی نصب ہیں۔

عزیز بلوچ نے شعبہ آرٹس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’میں سکول کے زمانے سے اس شعبے سے جڑا ہوا ہوں۔ جب میں بہترین ڈرائنگ بناتا تھا، تو استاد کی جانب سے شاباش ملتی، اور یہی حوصلہ افزائی مجھے آج آرٹسٹ بننے میں مددگار ثابت ہوئی۔ یونیورسٹی پہنچ کر بھی، میرے تجربات نے تعلیمی سرگرمیوں میں میری مدد کی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں آرٹ کو صرف پینٹنگ کی نظر سے نہیں بلکہ ثقافت، درد، جذبہ، جنون، اور محبت کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ آرٹ کی اصل خوبصورتی تب ہوتی ہے جب آرٹسٹ تخلیق کار ہو، یعنی خیالی دنیا کو آرٹ کے ذریعے زبان اور آواز دے۔‘

عزیز بلوچ کے مطابق وہ آرٹ میں پسماندگی جیسے غربت، افلاس، قحط سالی، اور بھوک پر کام کرتے ہیں۔ ’خانہ بدوشوں کی زندگی میرے لیے سبق آموز ہے اور میں آرٹ کے ذریعے ان کی مشکلات کو اجاگر کرتا ہوں۔ میرے اکثر آرٹس میں پہاڑوں کے دامن میں جھونپڑی، جانور، اور مٹی کے ٹوٹے برتن شامل ہوتے ہیں۔ مجسمہ سازی میں بھی مجھے خاص مہارت حاصل ہے، اور میں دنیا کی کوئی بھی چیز، شخص یا جانور کا مجسمہ بنا سکتا ہوں، بغیر کسی معمولی فرق کے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں نے دبئی میں مختلف مجسمے تیار کیے، جن میں ایک اونٹ کا مجسمہ شامل ہے، جو آج بھی کسی چوراہے پر نصب ہوسکتا ہے۔ میں خود ہی ہر مجسمہ تیار کرتا ہوں، چاہے وہ آنکھ ہو، دانت ہو، یا کوئی اور حصہ۔ مجسمہ سازی میں کوئی کوتاہی مجھے قبول نہیں ہوتی۔ بلوچستان کے کلچر کو اجاگر کرنے کے لیے میں نے گھوڑا، شاہین، جنگلی مارخور، اور اونٹوں کے مجسمے بنائے ہیں، جو بلوچ کلچر کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

عزیز بلوچ کا کہنا ہے کہ ’میں جنگلی جانوروں کے ڈمی بنا کر ان پر کھال چڑھاتا ہوں، جو بالکل حقیقی نظر آتی ہے۔ بیرونی ممالک میں بھی ملک کا نام روشن کیا ہے اور لائیو پینٹنگ میں بھی انسانی ساخت کو بوبہو بنا سکتا ہوں۔ میں دنیا کے کسی بھی مجسمہ ساز سے مقابلے کے لیے تیار ہوں اور پاکستان کی تمام کلچروں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

عزیر بلوچ کے مطابق ’مجھے مختلف آفرز موصول ہوئیں لیکن کوئی پائیدار آفر نہیں ملی۔ بیرونی ممالک میں ویزہ کی معیاد ختم ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر قیام نہیں کر سکا۔ پاکستان میں خاص طور پر بلوچستان میں آرٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، جبکہ کراچی، اسلام آباد، اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں آرٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

’اگر میں ان شہروں سے آغاز کرتا تو شاید آج تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب حالات یہ ہیں کہ میں صرف دو وقت کی روٹی کے ساتھ اپنے شوق کو پورا کر رہا ہوں۔ اگر کسی جگہ سے اچھا آفر ملے تو قبول کرلوں گا، مگر مجھے حکومت کی کسی تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ