امریکہ کی دو امدادی تنظیموں اور حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل نے رواں سال جان بوجھ کر غزہ میں خوراک اور ادویات کی ترسیل روک دی تھی لیکن ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو بچانے کے لیے کانگریس سے مبینہ طور پر غلط بیانی کی۔
نیو یارک میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’پرو پبلکا‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے سرکاری اداروں اور حکام کے ان جائزوں کو نظر انداز کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اس سال کے شروع میں غزہ کے لیے امریکی امداد کو روک دیا تھا لیکن نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلنکن نے کانگریس کے سامنے ایک مختلف نتیجہ پیش کیا۔
پرو پبلکا نے منگل کو جاری اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا کہ امریکی امدادی ایجنسی ’یو ایس ایڈ‘ نے اپریل کے آخر میں محکمہ خارجہ کو بتایا تھا کہ اسرائیل غزہ کے لیے امریکی انسانی امداد کو ’من مانی انکار، پابندی اور رکاوٹوں‘ سے نشانہ بنا رہا ہے۔
پرو پبلکا نے کہا کہ محکمہ خارجہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے عہدیداروں نے اپریل میں یہ بھی پایا کہ ’زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی انسانی امداد کو محدود کیا جا رہا ہے۔‘
لیکن اس کے برعکس مئی میں بلنکن نے کانگریس کو محکمہ خارجہ کی ایک بالکل ہی مختلف رپورٹ پیش کی۔
محکمہ خارجہ نے 10 مئی کو اپنے جائزے میں کہا کہ ’ہم فی الحال اس بات کا اندازہ نہیں لگا رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت امریکی انسانی امداد کی نقل و حمل یا ترسیل پر پابندی لگا رہی ہے یا کسی اور طرح سے اسے محدود کر رہی ہے۔‘
لیک ہونے والے میمو کے مطابق اگر بلنکن کانگریس کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کر دیتے تو اس سے اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی پر بڑے اثرات مرتب ہوتے جس میں اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی بھی شامل ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی قانون کسی ایسے ملک کے لیے سکیورٹی (ہتھیاروں کی) فراہمی پر پابندی لگاتا ہے جو امریکہ کی انسانی امداد کی نقل و حمل یا ترسیل پر براہ راست یا بالواسطہ پابندی لگائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ اسرائیل کو سالانہ کم از کم 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے اور اس سال بائیڈن نے اسرائیل کی غزہ جنگ جارحیت میں مدد کے لیے مزید 14 ارب ڈالر کی اضافی امداد کی منظوری دی۔
اس فنڈ کی بڑے پیمانے پر مذمت اور جانچ پڑتال کی گئی۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مئی کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اسرائیل غزہ کے لیے امریکی امداد کو روک نہیں رہا جب کہ اس کے برعکس نئی افشا ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں تک امداد کو روکنے کے لیے اسرائیلی شہریوں کے احتجاج کی حوصلہ افزائی کی۔
دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے امداد کی فراہمی میں ’بڑے پیمانے پر دفاتری معاملات کے ذریعے تاخیری حربے استعمال کیے اور انسانی آبادی والے مقامات پر فوجی حملے شروع کیے۔
اسرائیلی فوج کی غزہ پر جارحیت میں 41 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی جان جا چکی ہے جبکہ اس پٹی کے گرد سخت محاصرہ نافذ کیا ہے جس نے اس کی آبادی کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اس سال کم از کم 34 فلسطینی بچے غذائی قلت سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
مارچ میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز نے بھی تسلیم کیا تھا کہ غزہ میں فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں۔