اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے پیر کو اسرائیلی فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں سکولوں، امدادی کارکنوں اور شہریوں پر حملے کر رہی ہے، جو اس کی اپنی قریبی اتحادی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت ہے۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی فوج کے خلاف غیر معمولی طور پر کھل کر بات کی اور کہا کہ حالیہ ہفتوں میں بہت سے حملے ایسے حملے ’روکے جا سکتے تھے‘ جن میں اقوام متحدہ کے عہدیدار اور امدادی کارکن زخمی ہوئے یا مارے گئے۔
دوسری جانب اسرائیل نے بارہا کہا ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتا ہے، جو اکثر عام شہریوں کے ساتھ چھپے ہوئے ہوتے ہیں اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کونسل کے بہت سے ارکان نے گذشتہ ہفتے فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کی جانب سے پناہ گزین کیمپ بنائے گئے ایک سکول پر اسرائیلی حملے کا حوالہ دیا، جس میں یو این آر ڈبلیو اے کے چھ ملازمین سمیت کم از کم 18 جان سے گئے، مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے احاطے میں حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو نشانہ بنایا تھا جبکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے پیر کو کہا کہ حملے میں حماس کے عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ انہوں نے کونسل کے سامنے چار افراد کے نام لیے اور دعویٰ کیا کہ وہ دن میں یو این آر ڈبلیو اے اور رات میں حماس کے لیے کام کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ امریکہ اسرائیل پر زور دیتا رہے گا کہ وہ فلسطینی علاقے میں انسانی بنیادوں پر کارروائیوں میں سہولت فراہم کرے اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں اور یو این آر ڈبلیو اے کی پناہ گاہوں جیسی تنصیبات کا تحفظ کرے۔
انہوں نے ترک نژاد امریکی کارکن عائشہ نور ایگی کی موت پر بھی امریکی غم و غصے کا اعادہ کیا، جنہیں گذشتہ ہفتے مغربی کنارے میں ایک احتجاج کے دوران گولی مار کر جان سے مار دیا گیا تھا۔
اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر انہوں نے غلطی سے عائشہ نور کو مارا ہے اور حکومت نے مجرمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
امریکی سفیر نے کہا: ’اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) ایک پیشہ ور فوج ہے اور اچھی طرح جانتی ہے کہ ایسے واقعات کو ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔‘
تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ توقع کرتا ہے کہ اسرائیلی فوجی رہنما اپنی کارروائیوں میں ’بنیادی تبدیلیوں‘ پر عمل درآمد کریں گے، جس میں جنگی اصول اور طریقہ کار کے قواعد بھی شامل ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فوجی کارروائیاں انسانی سرگرمیوں سے متصادم نہ ہوں اور سکولوں اور دیگر سویلین تنصیبات کو نشانہ نہ بنائیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم نے اسرائیل کو یہ بھی واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اس کی افواج کی جانب سے اقوام متحدہ کی واضح طور پر نشان زد گاڑیوں پر فائرنگ کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں ہے، بالکل بھی نہیں، جیسا کہ حال ہی میں متعدد مواقع پر ہوا ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حماس بھی شہری مقامات پر چھپی ہوئی ہے اور بعض صورتوں میں ان پر قبضہ کر رہی ہے یا ان کا استعمال کر رہی ہے، جو ’ایک مستقل خطرہ‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ بقول تھامس گرین فیلڈ اگرچہ امریکہ اپنے ساتھی ثالثوں مصر اور قطر کے ساتھ مل کر دونوں فریقوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے، لیکن ’یہ بالآخر سیاسی عزم اور مشکل سمجھوتوں کا سوال ہے۔‘
امریکہ کے سیکریٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن اس ہفتے مصر جا رہے ہیں تاکہ اسرائیل اور حماس کو پیش کرنے کے لیے ایک تجویز کو بہتر بنانے کے حوالے سے بات چیت کی جا سکے۔
تھامس گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’امریکہ حماس پر اثر و رسوخ رکھنے والے سلامتی کونسل کے تمام ارکان پر زور دیتا ہے کہ وہ اس کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ یہ سمجھوتے کریں اور بغیر کسی تاخیر کے معاہدے کو قبول کریں۔‘
انہوں نے یہ بات غزہ میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی اعلیٰ عہدیدار سگرڈ کاگ کے اس بیان کے بعد کہی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ علاقہ 20 لاکھ سے زائد افراد کے لیے ’زمین پر جہنم‘ ہے۔ انہوں نے شہریوں کی مؤثر حفاظت نہ ہونے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
غزہ کے لیے اقوام متحدہ کی سینیئر انسانی اور تعمیر نو کی کوآرڈینیٹر سگرڈ کاگ نے کونسل کے ارکان اور نامہ نگاروں کو بتایا کہ تنازع نے علاقے کو ’کھائی میں تبدیل‘ کر دیا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے دوران اب تک 41 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے ہیں۔
انسانی ہمدردی کی کارروائیوں کو لاقانونیت، اسرائیلی انخلا کے احکامات، جھڑپوں اور امدادی کارکنوں کے لیے مشکل حالات کے باعث رکاوٹ کا سامنا ہے، جن میں اسرائیل کی جانب سے رسائی سے انکار، تاخیر، حفاظت اور سلامتی کا فقدان اور ’ناقص لاجسٹک انفراسٹرکچر‘ بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی سفیر ڈینن نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کی انسانی ہمدردی کی کوششیں جنگ پر مجبور ہونے والے ملک کے لیے ’بے مثال‘ ہیں اور انہوں نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ’حقائق پر بات کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ 50 ہزار سے زائد ٹرکوں اور تقریباً 10 لاکھ لینڈ کراسنگز کے ذریعے 10 لاکھ ٹن سے زائد امداد پہنچائی گئی اور صرف ایک چھوٹے حصے کو ہی روکا گیا ہے۔
ڈینن کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر، سگرڈ کاگ نے انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے اداروں کے قافلوں، سکولوں اور صحت کے مراکز پر حالیہ حملوں کی طرف اشارہ کیا، جن کے بارے میں اسرائیل کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ٹرکوں کے متعلق نہیں۔ یہ اس بارے میں ہے کہ لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ ہم لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات سے بہت دور ہیں، بلکہ ہم سب جسے ایک باعزت انسانی زندگی سمجھتے ہیں، اس سے بھی دور ہیں۔‘