بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے فوکل پرسن اور لاہور ہائی کورٹ کے ممبر انتظار حسین پنجوتھا گذشتہ روز بدھ سے اسلام آباد سے لاپتہ ہیں جبکہ ایک حالیہ ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ کے بیٹے احسن فتیانہ بھی دو دن پہلے نامعلوم افراد کے ہاتھوں گھر سے اغوا ہوئے۔
اس حوالے سے اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ نے جمعے کو وزارت داخلہ اور پولیس حکام سے رپورٹ طلب کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی جانب سے انتظار حسین پنجوتھا کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر جمعرات کو سماعت کی جہاں آئی جی اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آئی جی صاحب اس حوالے سے کیا پوزیشن ہے؟ (گمشدہ افراد کی) آخری لوکیشن کس جگہ کی ہے؟‘
آئی جی اسلام آباد نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بارے میں درخواست موصول ہوئی ہے جس کے بعد سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم بنائی ہے ایس ایس پی انویسٹیگیشن سربراہی کریں گے۔
’ڈیجیٹل سرویلینس، سیف سٹی کیمروں سے ہم نے پتہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایف سکس اور ایوب چوک کے کیمروں میں انتظار پنجوتھا کی گاڑی نظر آئی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے مرزا آصف ایڈوکیٹ کے ساتھ وہ فیض آباد تک گئے تھے۔ ایک موبائل نمبر سامنے آیا ہے جو واٹس ایپ پر ہے۔ واٹس ایپ لوکیشن ہم انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے لیتے ہیں ابھی کچھ معلوم نہیں، آخری دفعہ گاڑی ایوب چوک دیکھی گئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آئی جی صاحب یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس پر پیشرفت دیں۔ وزارت دفاع سے رپورٹ منگواتا ہوں، وزارت دفاع کا مجاز افسر بھی بلاتا ہوں۔ رپورٹ منگوا کر کل کے لیے کیس رکھ رہا ہوں۔ وہ ایک وکیل، سیاسی ورکر اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے شہری ہیں۔ اسلام آباد میں یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے، آئی جی صاحب آپ ذمہ دار ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘
اسی طرح لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے احسن فتیانہ کے اغوا سے متعلق صوبائی وزارت داخلہ اور ایس پی انویسٹیگیشن سے کل رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایم این اے ریاض فتیانہ کی اہلیہ آصفہ فتیانہ نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ان کے بیٹے احسن فتیانہ، جو سابق ایم پی اے بھی ہیں، انہیں دو دن پہلے ڈیفنس ہاؤسنگ کالونی میں ان کی رہائش گاہ سے 25 نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر اغوا کر لیا ہے۔
انہوں نے پولیس تھانہ ڈیفنس میں بھی مقدمہ درج کرایا ہے لیکن احسن کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔ درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔
شہریوں کی گمشدگی یا اغوا کا معاملہ رک کیوں نہ سکا؟
سیکریٹری لاہور ہائی کورٹ بار بیرسٹر قادر بخش نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے لاہور ہائی کورٹ بار کے سینیئر رکن انتظار حسین پنجھوتا کی بازیابی کے لیے آج رات تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
’اگر انہیں بازیاب نہ کرایا گیا تو کل آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوچکی ہے اس لیے لاہور میں عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ انہیں سیاسی وابستگی کی وجہ سے اغوا کیا گیا ہو لیکن یہ بھی غیر قانونی طریقہ ہے۔ کیونکہ ملکی قانون کے مطابق کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے باقاعدہ گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔‘
لاپتہ افراد کو قانونی امداد فراہم کرنے والے سینیئر قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں شہریوں کو اغوا یا جبری لاپتہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئین ہر شہری کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کو دیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اس قسم کی کارروائیوں کا موجب بن رہے ہیں۔ قانون میں کسی بھی جرم پر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ملزم کو عدالت پیش کر کے جرم ثابت کرنا لازمی ہوتا ہے۔‘
سینیئر قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام کے مطابق ’جبری گمشدگیوں اور لاپتہ شہریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایسے افراد کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ سلسلہ مشرف دور میں بھی جاری تھا اور عمران خان کے دور حکومت میں بھی تین سو سے زائد افراد لاپتہ یا جبری گمشدہ کیے گئے۔ ان میں سے 29افراد کا خفیہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کر کے تین افراد کو صفائی کا موقع دیے بغیر موت کی سزا سنا دی گئی۔ ہم نے اس کے خلاف بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس حوالے سے مشاورت سے قانون بنانے پر اتفاق ہوا کہ جو بھی جبری گمشدگی یا لاپتہ کرنے کا جرم کرے اس کو آٹھ سال قید کی سزا ہوگی۔ لیکن یہ مسودہ قائمہ کمیٹی سے ہی غائب ہو گیا اور اسمبلی میں پیش ہی نہ ہونے دیا گیا۔ لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ بھی کیا لیکن وہ خاموش رہے۔
’اب انہی کی جماعت کے لوگوں کو وہی مسائل درپیش ہیں جو ان کے دور میں دوسرے لوگوں کو تھے۔ اس دور میں بھی وہی کیا جا رہا ہے جس طرح پی ٹی آئی کے لوگوں کو اغوا یا لاپتہ کیا جا رہا ہے کل موجودہ برسر اقتدار جماعتوں کو یہی چیلنجز بھگتنا ہوں گے۔ اس لیے ایسی قانون سازی ضروری ہے جس سے ماورائے عدالت کارروائیوں کو روکا جاسکے۔‘