لاہور جب بھی جانی ہوں تو ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے اور یہاں کے باسی بہت ملنسار ہیں۔ اس بار مجھے لاہور مرحوم ارشد شریف کے ایوارڈ وصول کرنے جانا تھا۔ لاہور سے دعوت نامہ آئے تو مجھ سے انکار نہیں ہوتا۔ اس شہر میں محبت ہے، جو مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔
میری زندگی کی بہت سی اچھی یادیں یہاں سے وابستہ ہیں۔ اکثر لاہور جاؤں تو سارا وقت تقریبات یا احباب کی طرف سی دی گئی دعوتوں میں نکل جاتا ہے لیکن اس بار میں نے سوچا کہ میں اندرون شہر دیکھ کر ہی جاؤں گی۔ یہ سفر بہت یادگار رہا۔ مجھے بہت عرصے بعد خوشی محسوس ہوئی۔ یہ جگہ تہذیبوں کا سنگم ہے اور مجھے تاریخ سے گہری دلچسپی ہے۔
لاہور راوی کنارے آباد ہے اور 10 ویں صدی میں معرض وجود میں آیا تھا۔ لاہور پر مختلف حکمرانوں کی حکومت رہی 11ویں صدی میں یہاں اسلام پھیلا اور سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، خاندان غلاماں، خلجی، تغلق، سید اور لودھی خاندانوں کی حکومت رہی۔
تاہم لاہور کی تاریخ اس وقت خوشگوار طور پر بدلی جب ظہیرالدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت قائم کی۔ مغل سلطنت نے اس شہر کی ہیئت ہی بدل دی۔ باغات، تالاب، نہریں، مدراس، داخلی دروازے، مساجد اور قلعے اس شہر کی وجہ شہرت بن گئے۔ اگر آپ لاہور میں اندرون شہر (والڈ سٹی) جائیں تو تاریخ کی یہ نشانیاں ہر طرف نظر آئیں گی۔
میں صبح 10 بجے لاہور کے شاہی قلعہ پہنچی تو گائیڈ لال شاہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ میری بہن کے بچے زیادہ پرجوش تھے کیونکہ جن عمارتوں کے بارے میں انہوں نے مطالعہ پاکستان میں پڑھا تھا وہ آج ان کے سامنے تھیں۔ لال شاہ جو خود نسلوں سے اندرون شہر میں آباد ہیں نے ہمیں شاہی قلعے کی تاریخ کے بارے میں بتایا۔ یہاں پر مغل فن تعمیر، سکھوں اور انگریزوں کے ادوار کی نشانیاں موجود تھیں۔
سب سے پہلے ہم شیش محل گئے۔ اس عمارت میں شیشے کا بہت خوبصورت کام ہوا ہے۔ جھروکے اتنے حسین ہیں کہ انسان گھنٹوں یہاں بیٹھ کر شہر کا نظارہ کرتا رہے۔ یہاں پر ایک مخصوص پتھر لگا ہوا ہے، جس پر جب گائیڈ نے موبائل فون سے روشنی ڈالی تو وہ رنگ بدلنے لگے۔ ہم سب یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پر ابھی ہمیں شیش محل میں ایک اور حیرت ناک چیز دیکھنا تھی اور وہ تھا حرم میں ملکہ ارجمند بانو کا کمرہ۔
انہوں نے اپنے شوہر شاہ جہان سے یہ فرمائش کی تھی کہ انہیں تارے زمین پر چاہییں۔ بس پھر کیا تھا ان سے پیار کرنے والے شوہر شہنشاہ شاہ جہان نے ان کی فرمائش پوری کی۔ اس کمرے میں موجود شیشے کے کام پر جیسے ہی روشنی پڑتی ہے وہ ستاروں کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے۔ ایسا لگا جیسے کسی افسانوی یا دیومالائی دنیا میں آ گئے ہوں۔
مسلمانوں کا تباناک ماضی ہم دیکھ رہے تھے۔ ان کے فن مصوری، فن تعمیر اور محبت کو سراہتے رہے۔ اس کے بعد ہم نے دیوان خاص دیکھا جہاں بادشاہ اپنے وزرا کے ساتھ دربار لگایا کرتے تھے۔ پھر موتی مسجد پر حاضری دی۔ جس کو شہنشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا اور یہ سنگ مرمر سے بنا ہوا فن تعمیر مسجد تھی۔
عالمگیری دروازہ دیکھ کر ہیبت طاری ہوتی ہے کہ اتنا بڑا اور مضبوط دروازہ اور فصیل کئی سو سال پہلے کیسی تعمیر ہوئی ہو گی۔ اس کے بالکل سامنے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور ان کےاور پاکستان کے لیے خصوصی دعائیں کی۔
لاہور میں اب بھی اچھی خاصی گرمی ہے اور ہمیں بھوک کا احساس ہوا تو گائیڈ ہمیں ساتھ فوڈ سٹریٹ لے گئے۔ آپ یہ فاصلہ پیدل بھی طے کرسکتے ہیں اور سیاحوں کے لیے کارٹس بھی موجود ہیں۔ جب ریسٹورانٹ کی پہلی منزل پر پہنچے تو سامنے بادشاہی مسجد تھی۔ پر میں وہاں اچھی تصویر بنانے سے قاصر تھی۔ ڈائننگ ایریا میں لائٹ کم تھی اور باہر روشنی تیز۔ اس لیے میں نے نظارے اور لاہوری کھابے کو انجوائے کرنا ضروری سمجھا۔
کھانے کے بعد ہم دوبارہ شاہی قلعے آئے اور آرمری گیلری گئے۔ یہ سکھ میوزیم 18 ویں اور 19 ویں صدی کے اسلحہ ہتھیاروں سے مزین ہے۔ اس سے اوپر تصاویر کی گیلری ہے، جس میں سکھ حکمرانوں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ یہ تصاویر شہزادی بمباسدرلینڈ جو رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں کی کولیکشن کا حصہ ہیں۔ یہاں پر ان حکمرانوں کی زندگی دیکھنے کو ملی، جو لاہور پر حکمرانی کرتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد ہم نے انگریزوں کا تعمیر کردہ توپ خانہ دیکھا۔ اس کے ساتھ نولکھا اور رنجیت سنگھ کا تعمیر کردہ حضوری باغ بارہ دری دیکھی۔ یہاں پر ہی ہماری ملاقات بلال طاہر سے ہوئی، جو لاہور فورٹ کے انچارج ہیں۔ انہوں نے بہت خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا اور یہاں پر جاری ثقافتی پروگراموں کے بارے میں بتایا۔ یہ ساری جگہ یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔
ہم قلعے کی عقب میں گئے تو مصور دیوار کو محفوظ کرنے کا کام زورشور سے جاری تھا۔ یہ دیوار کئی میٹر پر پھیلی ہوئی اور فن مصوری کا شاہکار ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس کے لیے ہمارے دوست ممالک نے خطیر رقم دی ہے۔ یہ دنیا کی وہ واحد طویل دیوار ہے، جس پر مصوری کی گئی ہے۔
والڈ سٹی کی انتظامیہ کے مطابق یہ دیوار 17 میٹر بلند اور 460 میٹر لمبی ہے۔ اس کی بحالی کے کام کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا اور اس میں دو عالمی اداروں کی معاونت بھی شامل ہے۔ اس دیوار پر تصاویر کی تعداد 100 سے زیادہ ہے، جو مغلیہ فن تعمیر کا مظہر ہیں۔ یہاں سے مینار پاکستان بھی نظر آتا ہے، جو پاکستان کی تاریخ کا گواہ ہے۔
لاہور میں اس کے علاوہ بھی بہت سی تاریخی عمارتیں ہیں لیکن ایک ہی دن میں تہذیبوں کا سنگم دیکھنا ہو تو اندرون شہر (والڈ سٹی) جائیں۔ آپ مغل، سکھ اور انگریز ادوار کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں۔ سکھ برداری کو خاص طور پر رنجیت سنگھ کی سمادھی پرجانا چاہیے۔ یہاں پر بہت سی حویلیاں موجود ہیں، جو دیکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے ساتھ شاہی حمام تالاب، فوڈ سٹریٹ اور تاریخی دروازے دیکھنے کے قابل ہیں۔
تاہم سیاح یہاں اس بات کا خیال رکھیں کہ ان جگہوں کو آلودہ کرنے اور چاکنگ کے علاوہ کچرا پھینکنے سموکنگ اور پان کی پیک پھینکنے سے گریز کریں۔ ان جگہوں کو صاف اور محفوظ رکھنے میں انتظامیہ کی مدد کریں۔
ہم اس بار انارکلی کا مزار اور شالیمار باغ نہیں دیکھ سکے امید ہے اگلے ٹرپ پر یہاں بھی جائیں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں تزئین و آرائش کا کام بھی جاری ہے اور والڈ سٹی لاہور کی انتظامیہ اس جگہ کی بحالی اور ثقافت کے لیے عمدہ کام کر رہی ہیں۔