انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق فروری 2024 کے انتخابات کے بعد بننے والے الیکشن ٹربیونلز میں انتخابی عذر داریوں کے فیصلوں میں تاخیر کی کئی وجوہات میں پہلے بننے والی عدالتوں کا کالعدم قرار دیا جانا، درخواست دہندگان کا حکم امتناعی حاصل کرنا، فریقین کی جانب سے تاخیری حربوں کا استعمال اور کئی ایک ٹریبونلز کا تاحال کام شروع نہ کرنا شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابی درخواستیں نمٹانے کے لیے الیکشن کمیشن نے پنجاب میں آٹھ ٹربیونلز تین اکتوبر سے تشکیل دے رکھے ہیں۔ لیکن انتخابی عذر داریوں کو فوری نمٹانے کا مقصد پورا نہ ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں قائم ٹربیونلز نے 155 میں سے صرف 10 یعنی چھ فیصد درخواستیں نمٹائی ہیں۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق ’الیکشن ایکٹ کے تحت ٹربیونلز انتخابی عذرداریوں کی روزانہ کی بنیاد پرسماعت کر کے فوری فیصلوں کے پابند ہیں۔ لیکن اس میں تاخیری حربوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن بھی تنقید کی زد میں ہے۔‘
سابق صدر لاہورہائی کورٹ بارمقصود بٹر کے بقول: ’الیکشن کمیشن کی جانب سے ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججز کے ساتھ ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ٹربیونلز تشکیل دیے گئے ہیں۔ جس کا مقصد انتخابات سے متعلق درخواستیں جلد نمٹانے کے بجائے تاخیر کرنا ہے۔ کئی متاثرہ امیدوار اس خوف سے درخواستیں دائر کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں کہ ناقابل سماعت قرار دے کر خارج نہ کر دی جائیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نظام میں کبھی بھی انتخابات سے متعلق شکایات کا فوری حل نہیں ہو سکا۔ کئی کئی سال ان درخواستوں پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ کئی کیسز تو اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد تک چلتے ہیں۔
’اس بار بھی پہلے پنجاب میں ٹربیونلز کی تشکیل کا مسئلہ بنا رہا۔ اگر ریٹائرڈ ججز کو شامل کر کے تشکیل دیے بھی گئے ہیں تو وہاں بھی حسب معمول روایتی تاخیر دیکھنے میں آئی ہے، جس سے سیاسی بے چینی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔‘
تاخیر کی ممکنہ وجوہات
مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے رواں سال جون میں صرف حاضر سروس ججز پر مشتمل ٹربیونلز تشکیل ، جنہوں نے انتخابی عذرداریوں کی سماعت بھی شروع کر دی تھی۔
’لیکن الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس میں کہا گیا کہ ٹربیونلز کی تشکیل کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ لہذا 30 ستمبر کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دے دیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے تین اکتوبر کو پنجاب میں آٹھ ٹربیونلز تشکیل دے کرآن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ ججز تعینات کیے۔ لہذا پہلے ٹربیونلز نے جو کام کیا تھا وہ نئے ٹربیونلز نے مسترد کر کے نئے سرے سے سماعت شروع کی۔
’موجودہ ٹربیونلز درخواستوں کو ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر خارج کر دیتے ہیں۔ شہادتیں ریکارڈ کرائے بغیر درخواستوں کے اخراج کا خوف اتنا ہے کہ کئی متاثرین درخواستیں دائر کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔‘
مقصود بٹر کا کہنا تھا کہ ’ٹربیونلز کی تعداد کے مقابلے میں مقدمات زیادہ ہیں جب کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت بھی ممکن نہیں ہو سکی۔ سیاسی بنیادوں پر کیس قابل سماعت یا ناقابل سماعت قرار دیے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے حربوں سے انتخابات سے متعلق مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘
کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت ٹربیونلز نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا ہوتی ہے۔ اگر وکلا حضرات تاخیری حربے استعمال کریں تو انہیں جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
’لیکن ٹربیونلز کی سست روی پر الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں ہے۔ کیونکہ ٹربیونلز کی کارکردگی جانچنا یا انہیں ہدایات جاری کرنا الیکشن کمیشن کا ہی اختیار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فیصلوں میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فریقین ان درخواستوں کے اختیار سماعت یا ٹربیونل کی تشکیل پر عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کی جانب سے بنائے گئے ٹربیونلز میں کئی کیس فائنل ہونے والے تھے لیکن کئی فریقین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ٹربیونلز تبدیل کروا لیے۔ اب ان کیسوں پر نئے سرے سے سماعت ہو گی پھر فیصلہ آئے گا، جس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘
کنور دلشاد نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام ٹربیونلز کو ہدایات جاری کرے کہ وہ انتخابی عذر داریوں سے متعلق فوری فیصلے کریں تاکہ بروقت انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فافن نے الیکشن ٹربیونلز کے حوالے سے تین دن پہلے 17 نومبر کو جاری ہونے والی چوتھی جائزہ رپورٹ مین دعویٰ کیا ہے کہ ’فروری 2024 کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے الیکشن ٹریبونلز بلوچستان کے علاوہ دیگر علاقوں میں انتخابی تنازعات کا فیصلہ کرنے میں سست روی کا شکار ہیں اور اب تک صرف 17 فیصد درخواستوں کا فیصلہ ہو سکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’10 اکتوبر سے 15 نومبر2024 کے درمیان پاکستان بھر کے الیکشن ٹربیونلزنے مزید 20 درخواستوں کا فیصلہ دیا، جس کے بعد فیصلہ شدہ درخواستوں کی مجموعی تعداد 60 ہو گئی۔ 337 انتخابی نتائج کے تنازعات کا تناسب 17 فیصد رہا۔ تاہم 23 میں سے سات ٹربیونلز نے ابھی تک کسی بھی پٹیشن پرفیصلہ نہیں دیا اور 23 ٹربیونلز میں دائر377 میں سے 350 درخواستوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان کے تین ٹربیونلزنے 51 میں سے 30 نتائج کے تنازعات (60 فیصد) نمٹا دیے ہیں، جب کہ اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں چھ ٹربیونلز نے 42 میں سے صرف آٹھ (19 فیصد) درخواستوں کا فیصلہ کیا ہے۔
’اسی طرح سندھ کے پانچ ٹربیونلز نے 83 میں سے محض 12 درخواستوں یعنی 14 فیصد کو نمٹایا اور پنجاب ٹربیونلز نے 155 درخواستوں میں سے صرف 10 (چھ فیصد) کو ہی حل کیا۔ پنجاب میں ٹریبونلز کے قیام کے نوٹیفکیشن کے باوجود ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل آٹھ میں سے چار ٹربیونلز نے ابھی تک سماعت شروع نہیں کی۔‘
فافن کے مطابق اسلام آباد کے لیے ٹربیونل میں تین زیرالتوا درخواستیں مدعا علیہان کی جانب سے دائر کردہ منتقلی کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلوں کی منتظر ہیں۔
فافن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پراب تک صوبائی حلقوں سے متعلق 239 درخواستوں میں سے 21 فیصد کا فیصلہ ہو چکا ہے اورقومی اسمبلی کی حلقہ بندیوں سے متعلق 111 درخواستوں میں سے صرف نو فیصد کا فیصلہ ہوا ہے۔
فیصلوں میں تاخیر سے سیاسی بے چینی
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں جمہوری اور سیاسی نظام کی مضبوطی نہ ہونے میں جو عوامل کارفرما ہیں ان میں انتخابی عذرداریوں کے بروقت فیصلے نہ ہونا بھی شامل ہے۔
’عذرداریاں بروقت طے نہ ہونے کے عمل کے نتیجہ میں اسمبلی کی مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن تنازعات حل نہین ہوتے جس کا رد عمل سیاسی افراتفری اور نظام پر عدم اعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے جو اصلاحات اور اقدامات ایوانوں میں ہونے چاہیے وہ نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے جب عدالتوں میں بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ اب تو ان مقدمات کے سننے کی ذمہ داری بھی ریٹائرڈ ججز کو سونپی گئی ہے۔ جس پر حذب اختلاف اسے حکومتی بدنیتی قرار دیتی ہے۔
’افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل مسائل کے سلجھاؤ کا ذریعہ بننے کے بجائے خود مسائل زدہ ہے۔ اسے درست کرنے کی کوشش نہ ہونے کی وجہ سے ہر انتخاب کے بعد انتخابی عزرداریوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔‘
سلمان غنی کے بقول، ’انتخابی تنازعات حل کرنے کے لیے فیصلوں کی چار ماہ مدت بھی مقرر ہے۔ مگر شاید ہی اس مدت میں کوئی فیصلہ ہوا ہو۔ اس کی مثال خود قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی ہے جو حکم امتناعی پر ہی اپنی مدت نکال گئے۔ اسی طرح چار حلقے کھولنے کے لیے پی ٹی آئی کئی سال تحریک چلاتی رہی۔ لہذا انتخابی عمل تب موثر اور نتیجہ خیز ہو گا جب اس میں شفافیت ہوگی۔ شفافیت کی بنیاد تب رکھی جاسکتی ہے جب عزرداریوں کے فوری فیصلے ہوں گے۔
’اس میں عدالتوں سے زیادہ کردار ہمارے سیاستدانوں اور ایوانوں کا ہے کہ وہ اپنے سسٹم کی درستگی اور مضبوطی کے لیے کام کریں۔ آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے تو پھر عدالتوں پر لوڈ نہیں آئے گا۔ اگر آئے گا تو وہ جلد فیصلوں کی پوزیشن میں ہوں گے۔
ہر مسئلے کا حل عدالتوں کے ذریعہ سے نکالنے کا مطلب نظام کو کمزور کرنا ہے۔ جہاں تک ریٹائرڈ ججز کی ٹربیونلز میں خدمات کا سوال ہے تو ان کی خدمات لیتے وقت ان کی شہرت اہلیت اور قابلیت کو مدنظر رکھنا چاہیے نہ کہ انکی سیاسی وابستگی دیکھی جائے۔‘