سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے اور کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے فریقین کے جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد نو جولائی کو درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کارروائی کے آغاز پر کہا کہ یہ فیصلہ آٹھ پانچ کے تناسب سے ہے، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ سے فیصلہ سنانے کو کہا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔‘
فیصلے میں کہا گیا: ’پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور رہے گی۔ انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتا۔ الیکشن کمیشن نے 80 اراکین اسمبلی کی فہرست پیش کی، جن میں سے 39 اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔‘
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد آزاد اراکین کے حساب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست (الیکشن کمیشن کو) جمع کروائے اور واضح کرے کہ کس جماعت سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔‘
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔ ’صوبہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں جبکہ جماعت کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت سے منسلک یا آزاد امیدوار تصور نہ کیا جائے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت نے اکثریتی فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فاٸز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا: ’سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین کو آزاد قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بجائے پی ٹی آئی کو دی جائیں۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر اور اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن کے اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
ایکس پر اپنے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔‘
اس سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’تحریک انصاف بحال ہوگئی ہے اور جو انہیں بٹھانا چاہتے تھے، وہ شرمندہ ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالتی حکم پر فوری عمل درآمد کرے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے پرجوش کارکن فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے احاطے میں عمران خان کے حق میں نعرہ بازی کرتے نظر آئے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی اپیل بنتی ہے: رانا ثنا اللہ
وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے جمعے کو کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔‘
انہوں نے پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل تو بنتی ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ قوم نے بن مانگے آئین میں ترمیم کرنے کا نتیجہ ماضی میں بھی بھگتا ہے۔
’ہم عدالت عظمیٰ اور ججز کی عزت کرتے ہیں، انہوں نے آئین کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے۔ آئین کو دوبارہ لکھنا میری سمجھ کے مطابق تحفظ میں نہیں آتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے عام آدمی کی سمجھ میں آنے چاہییں۔
مسلم لیگ ن کو عدالتی فیصلے سے خطرہ نہیں: وزیر قانون
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکومت خصوصاً مسلم لیگ ن کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی خطرہ نہیں اور ان کے پاس 209 اراکین کی اکثریت موجود ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت عدالتی فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرے گی یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔‘
وفاقی وزیر قانون نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’محسوس ہوتا ہے کہ آئین کو ازسر نو تحریر کردیا گیا ہے، کیونکہ پی ٹی آئی کے اراکین نے الگ الگ انتخابی نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا اور جیتنے کے بعد الیکشن کمیشن یا پشاور ہائی کورٹ مں نہ پیش ہوئے اور نہ ہی بیان حلفی جمع کروایا کہ ہمارا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔‘
بقول اعظم نذیر تارڑ، ان سب کا یہ دعویٰ تھا کہ ’ہم آزاد حیثیت میں جیت کر آئے ہیں اور ہمارا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ’یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بے شک آئین کی تشریح کے اصول سے آگے جاکر، آرٹیکل 51 اور 106 میں واضح لکھے ہوئے الفاظ سے آگے جا کر، ایک نیا میکانزم تجویز کیا گیا ہے اور ماضی میں اس کی مثال بہت کم ملے گی۔‘
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ: کب کیا ہوا؟
گذشتہ برس 22 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہ کروانے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، جس کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس پر عدالت عالیہ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔
تاہم کمیشن کی جانب سے نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے دوسرے جج نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بھی جماعت کو بلے کا نشان نہ دینے کا فیصلہ سنایا۔
اس فیصلے کے پیش نظر پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے نامزد کردہ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے آزاد امیدواروں کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات میں حمایت یافتہ اراکین کی بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے کے بعد پارٹی کی قیادت نے ’مخصوص نشستوں کے حصول‘ کے لیے 20 فروری کو قومی اسمبلی، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی جبکہ مرکز اور پنجاب میں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ اتحاد کیا جائے گا، تاہم جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا۔
21 فروری کو پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں قومی اسمبلی کے لیے 86 آزاد اراکین کی شمولیت کے سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائےگئے جبکہ صوبوں میں پنجاب اسمبلی کے 105، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 85 اور سندھ اسمبلی کے نو آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سرٹیفکیٹ بھی جمع کروائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد مزید اراکین کے سرٹیفکیٹ بھی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے جاتے رہے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو ’خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے کوٹا فراہم‘ کی غرض سے مراسلہ لکھا۔
چند روز بعد 28 فروری کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے چار اراکین نے ’مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے‘ کا فیصلہ دیا جبکہ ایک رکن نے اختلافی نوٹ میں آئین پاکستان کے ’آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم تک نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے بجائے خالی رکھنے‘ کا فیصلہ دیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ بھی جاری کیا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’معزز ممبران کے ساتھ اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ نہیں کی جاسکتیں کیونکہ سیاسی جماعت کی طرف سے ترجیحی فہرست وقت پر جمع نہیں کی گئی جو کہ قانون کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے الیکشن کے بعد کے مرحلے میں جمع نہیں کرایا جا سکتا۔
’تاہم، دوسری سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے ذریعے نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے میرے اختلافی خیالات ہیں۔ میری رائے میں آئین کے آرٹیکل 51(6-d) اور 106 (3-c) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کی جانب سے حاصل کی گئی جنرل نشستوں کی کل تعداد کی بنیاد پر متعلقہ صوبے سے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی سے مخصوص نشستیں مختص کی جائیں گی، تاہم یہ مخصوص نشستیں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم تک خالی رکھنی چاہییں۔‘
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
اس کیس کی سماعت کچھ روز مکمل ہونے کے بعد رواں برس مارچ میں ہائی کورٹ نے بھی کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کر دی۔
سنی اتحاد کونسل نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔
ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بنایا گیا، جس نے رواں برس چھ مئی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا، جس کے بعد تین جون کو فل کورٹ تشکیل دیا گیا، جس نے سماعت کے بعد نو جولائی کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔
ایوان میں نمبر گیم کیا؟
قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتوں کے اراکین ایوان کا حصہ ہیں، جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔
آٹھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں، جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ معطل کرنے کے بعد یہ تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔
سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے، جن میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 26 خیبر پختونخوا اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی سے ہیں۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا تھا اور بعدازاں کامیاب امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔
آئینِ کے مطابق آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں لازمی شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں 90 میں سے آٹھ اراکین آزاد حیثیت میں رہے جبکہ 82 سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔
قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے حوالے سے دستاویز جاری کی تھی، جس کے مطابق مسلم لیگ ن 75 جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئی، آٹھ آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کے ارکان کی جنرل نشستیں 83 ہو گئیں۔
مسلم لیگ ن کو اقلیتوں کی چار اور خواتین کی 20 نشستیں ملنے سے مسلم لیگ ن کی اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 107 ہو گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 امیدوار جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، کسی آزاد امیدوار نے شمولیت اختیار نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کو اقلیتوں کی دو نشستیں اور خواتین کی 12 نشستیں ملنے سے یہ تعداد 68 ہو گئی۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 17 امیدوار کامیاب ہوئے، ایم کیو ایم کو اقلیت کی ایک نشست اور خواتین کی دو نشستیں ملی، جس کے ساتھ ارکان کی تعداد 20 ہو گئی۔ جمیعیت علمائے اسلام کے ارکان کی مجموعی تعداد 10 ہو گئی ہے۔
جمیعت نے چھ جنرل نشستیں، خواتین کی تین مخصوص نشستیں اور اقلیت کی ایک نشست حاصل کی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے تین اراکین جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے اور ایک آزاد امیدوار کی شمولیت اور خواتین کی ایک مخصوص نشست کے بعد ارکان کی تعداد پانچ ہو گئی جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کے تین امیدوار کامیاب ہوئے اور ایک خاتون نشست ملنے سے تعداد چار ہو گئی۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پارٹی پوزیشن
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد میں آٹھ جماعتیں ہیں، جن میں مسلم لیگ ن 107، پیپلز پارٹی 68، ایم کیو ایم 20، مسلم لیگ ق پانچ، استحکام پاکستان چار جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک ایک نشستیں ملا کر ان جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں لیکن سنی اتحاد کونسل کی 22 مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو ملنے کے بعد نمبر 230 ہو گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی کی بچ جانے والی یہ 23 مخصوص نشستیں جن میں سے پاکستان مسلم لیگ ن کو 16 ملیں تو تعداد 123 ہو گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو پانچ مزید مخصوص نشتوں کے ساتھ تعداد 73، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کو ایک ایک مزید نشست دی گئی تھی تو مجموعی تعداد بالترتیب 21 اور 11 ہو گئی۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی پوزیشن
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 90 سیٹوں پر الیکشن جیتا تھا۔ دیگر جماعتوں نے مجموعی طور پر 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جن میں جمعیت علمائے اسلام ف سات سیٹوں پر، مسلم لیگ ن چھ نشستوں پر اور پاکستان پیپلز پارٹی چار نشستوں پر جیتی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہیں مل پائیں، اس لیے خیبرپختونخوا اسمبلی میں موجود تمام 26 مخصوص نشستیں ان تمام دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی گئیں۔
جے یو آئی ف کو صوبہ خیبرپختونخوا سے سات جنرل نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق انہیں 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، جس کے بعد اس جماعت کی مجموعی سیٹوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے صوبہ خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں چھ نشستیں جیتیں اور الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق انہیں آٹھ مخصوص نشستیں دی گئیں، جس کے بعد مسلم لیگ ن کی مجموعی تعداد 14 ہو گئی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور الیکشن کمیشن کے مطابق انہیں چھ مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا سے ایک، ایک سیٹ جیتنے والی عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے حصے میں بھی ایک، ایک مخصوص نشست آئی تھی۔
پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلی
اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بچ جانے والی خواتین و اقلیتوں کی 27 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کی گئیں۔ سندھ کی بچ جانے والی دو مخصوص نشستیں، جن میں سے ایک خواتین اور ایک اقلیت کی نشست تھی، جو بعد میں تقسیم کی گئی۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین نے نشست نہیں جیتی، اس لیے وہاں ان کی مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔
نشستیں نہ ملنے کی صورت میں حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہو جائے گی
آئین پاکستان میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ آئین میں دو تہائی اکثریت کی تعداد سے کم اراکین آئین میں ترمیم کا کوئی بل منظور نہیں ہو سکتا۔ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں حکومت کے لیے سنی اتحاد کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہو گا۔