ثقافتی ورثے میں شامل رباب، جس کے بغیر پشتو موسیقی ادھوری

یونیسکو نے رباب کے بنانے اور بجانے کے فن کو افغانستان اور ہمسایہ ممالک ایران، ازبکستان اور تاجکستان کا ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) نے موسیقی کے آلے رباب  کے بنانے اور بجانے کے فن کو افغانستان اور ہمسایہ ممالک ایران، ازبکستان اور تاجکستان کا ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

گذشتہ ہفتے یونیسکو کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ رباب وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا کے موسیقی کے آلات میں سے ایک ہے، جو مختلف خوشی اور غم کے رسومات میں بجایا جاتا ہے۔

یونیسکو کے مطابق شہتوت کی لکڑی سے بنایا جانے والا موسیقی کا یہ آلہ عام طور پر غیر رسمی طریقے سے سکھایا جاتا ہے اور اسے بجانے اور سکھانے کا فن خاندانوں میں رہتا ہے۔

اسی بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’رباب افغانستان، تاجکستان، ایران اور ازبکستان کے درمیان ثقافتی اور سماجی ہم آہنگی میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔‘

یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والے رباب کے حوالے سے جاری بیان میں پاکستان اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا کا ذکر نہیں لیکن رباب کا استعمال خیبر پختونخوا میں بھی بہت زیادہ ہے۔ 

گلاب خیل آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور گذشتہ سال رباب کے فن سے وابستگی کی بنیاد پر ان کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رباب کی تاریخ تقریباً چھ ہزار سال پرانی ہے لیکن مشرق وسطی، افریقہ اور مصر سمیت مختلف علاقوں میں رباب کی شکل کے موسیقی کے دوسرے آلات موجود ہیں۔ 

تاہم گلاب خیل کے مطابق پشتو موسیقی یا افغانستان میں استعمال ہونے والا رباب جو بنیادی طور پر ’روح باب‘ سے نکلا ہے، کی شکل ہزاروں سال سے یہی آرہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے میوزیم میں ایسے مجسمے موجود ہیں، جو تقریباً تین ہزار سال پرانے ہیں اور ان کی گود میں موجودہ دور کے رباب کی شکل کا آلہ پڑا ہے۔‘

اسی سے گلاب خیل کے مطابق واضح ہوتا ہے کہ موجودہ رباب کی شکل ہزاروں سال پہلے بھی یہی تھی، جو پشتو موسیقی میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ 

ڈاکٹر راشد احمد خان پشتو کے مشہور گلوکار ہیں اور رباب کی تاریخ پر تحقیقی مقالہ بھی لکھ چکے ہیں، جس کے مطابق عرب ممالک میں رباب کو رباپ، چین میں رواپ، لاطینی زبان میں ریبک کہتے ہیں۔ تاہم اس کی ایجاد متنازعہ ہے۔

تحقیقی مقالے میں راشد خان لکھتے ہیں کہ رباب کی ایجاد کے حوالے سے برصغیر میں ہندو یہ آلہ ایجاد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا اپنا دعویٰ ہے۔ لیکن دونوں کے پاس مستند ثبوت موجود نہیں ہیں۔

گلاب آفریدی دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور ان کے مطابق ہر جگہ پر رباب کی آواز نے شائقین کو محصور کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’افغان رباب‘ یا ’کابلی رباب‘ کو بہتر رباب سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی لکڑی ہے۔

’زیادہ تر برفانی علاقوں کے شہتوت کی لکڑی سے بہترین رباب بنایا جاتا ہے اور اس کی صفائی بھی بہترین طریقے سے کی جاتی ہے۔‘

کیا پشتو موسیقی کے علاوہ دیگر زبانوں کی موسیقی میں بھی رباب کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے جواب میں گلاب خیل نے بتایا کہ کوک سٹوڈیو کو دیکھ لیجیے جس کے پہلے سیزن میں زیب بنگش نے فارسی کے گانے میں رباب کا استعمال کیا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد جتنے میں سیزن ہو ریکارڈ ہوئے ان میں رباب کا استعمال ضرور کیا گیا۔ ان کوک سٹوڈیو اور رباب لازم و ملزوم ہو بن گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رباب کا سائز اور تاریں 

گلاب آفریدی کے مطابق رباب مختلف سائز میں بنائے جاتے ہیں اور سب سے بڑے رباب کی لمبائی 30 سے 31 انچ ہوتی ہے، جس میں مجموعی طور پر 21 تاریں لگائی جاتی پہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس میں تین تاریں میلوڈی کے لیے ہوتی ہیں، جن سے مختلف دھنیں بنتی ہیں، جبکہ تین تاروں کے ایک الگ سیٹ کو ’شاہ تاریں‘ کہلاتا ہے۔ رباب میں 15 دوسری تاریں مختلف قسم کی طرزیں بنانے کے لیے کی جاتی ہیں۔

رباب، صوفی ازم اور امن کا نشانی 

بعض مبصرین کے خیال میں رباب کا صوفی ازم کے ساتھ بھی تعلق ہے، جبکہ اس آلے کو امن کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے اور پشتو ادب میں اسے بندوق کے متبادل کے طور بھی پیش کیا گیا ہے۔ 

پشتو شاعر اور پشتو ادب کے سابق استاد لقمان کیمور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشتو کے صوفی شاعر عبدالرحمان بابا (رحمان بابا) نے بھی اپنے لیے ایک رباب بجانے والا رکھا تھا، جو ان کی شاعری کو رباب میں بجاتے تھے۔

لقماب کیمور کے مطابق رباب ایک ہمہ گیر آلہ ہے اور اس میں ہر قسم کی موسیقی بجائی جا سکتی ہے۔

’لیکن پشتو کے لوک ورثہ کے طور پر ٹپہ (پشتو شاعری کی پرانی صنف جس میں دو لائنیں ہوتی ہیں)، بدلہ (پشتو فولک نظم) اور چاربیتہ (چار لائنوں پر مشتمل نظم کی شکل، جس میں 200 تک مصرعے ہوتے ہیں) میں رباب ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔ 

ہندو کتابوں میں درج ’وینا‘ رباب ہے؟

راشد خان نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ ہندو مذہب کی مقدس کتابوں (رگوید، یجروید، سام وید، اتر وید مہابارت، اور رامائن) میں تاروں سے جڑے ایک ساز کا ذکر ہے، جس کا نام ‘وینا’ لکھا گیا ہے۔ 

تاہم مقالے کے مطابق وینا اس کی شکل کے حوالے سے تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی