پنجاب مسلم لیگ ن کے لیے ’اپوزیشن فری‘؟

پی ٹی آئی لاہور کے صدر ایم پی اے امتیاز شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے کارکن اور اراکین اسمبلی قیادت کی ہر کال پر متحرک ہوتے ہیں۔ ہر بار احتجاج کی کال پر حکومتی رکاوٹوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث گرفتاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی حیثیت سے کردار کو ’غیر تسلی بخش‘ قرار دیا جا رہا ہے، جب کہ پارٹی کی حکومت مخالف احتجاج کی کالز بھی غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں اسی وجہ سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کو ضلع شیخوپورہ میں حالیہ ضمنی انتخاب میں بھی بھاری اکثریت سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے میڈیا سے گفتگو میں حریف جماعت کے حوالے سے کہا کہ ’پنجاب کے عوام مریم نواز کی حکومت سے خوش ہیں۔ عوامی مسائل حل ہونے پر عوام نے پی ٹی آئی کو مسترد کردیا ہے۔ اس لیے کسی احتجاج یا لانگ مارچ کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔‘

پی ٹی آئی لاہور کے صدر ایم پی اے امتیاز شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے کارکن اور اراکین اسمبلی قیادت کی ہر کال پر متحرک ہوتے ہیں۔ ہر بار احتجاج کی کال پر حکومتی رکاوٹوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث گرفتاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔‘

تجزیہ کار بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 16 دسمبر کو سول نافرمانی کی تحریک کی کامیابی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی کامیابی کے امکانات پر شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔

سینیئر صحافی جاوید فاروقی کے بقول، ’پی ٹی آئی جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کو متحرک رکھتی تھی۔ جس طرح دیگر جماعتیں دوران اپوزیشن رکھتی رہی ہیں۔ لیکن پنجاب میں قیادت کا فقدان اور ایوان میں مؤثر اپوزیشن نہ کرنے پر نہ صرف کارکن بلکہ اراکین اسمبلی بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔‘

پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی کارکردگی 

جاوید فاروقی کے بقول، ’پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف نے حکومت کو ابھی تک کوئی ٹف ٹائم نہیں دیا۔ وزیر اعلی کے انتخاب سے اب تک حکومت کو کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئی۔ بلکہ مریم نواز کے خلاف نعرے بازی پر پی ٹی آئی کے متعدد اراکین کی رکنیت ہی معطل کر دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد اپوزیشن اراکین اسمابلی کے اجلاسوں میں پوری طرح شریک ہوتے ہیں نہ قانون سازی میں روکاوٹ ڈالنے یا اسے تبدیل کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ پیکا ایکٹ جیسے قانون حکومت نے آسانی سے منظور کروا لیے۔ احتجاج اور بیان بازی بھی محدود ہو گئی ہے۔‘

جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ آٹھ سے 10 ماہ کے دوران پنجاب حکومت کے خلاف اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف وزیر اعلی کے انتخاب اور بجٹ اجلاس کے موقع پر نعرے بازی کی گئی۔ لیکن قانون سازی ہو یا قراردادوں کی منظوری حکومت تمام امور بغیر کسی رکاوٹ کے چلا رہی ہے۔ کسی پالیسی یا منصوبے میں تبدیلی کرانے میں اپوزیشن ابھی تک ناکام رہی ہے۔‘

عظمیٰ بخاری کے مطابق: ’اپوزیشن اراکین شور شرابے اور بےجا تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اگر کوئی عوامی مفاد میں بہتر تجویز دیں تو اس پر غور کریں گے۔ لیکن ذاتیات سے متعلق نازیبا نعرے اور ہنگامہ آرائی برداشت نہیں کیے جا سکتے۔‘

پی ٹی آئی پنجاب کے پارلیمانی رکن امتیاز شیخ کے مطابق ’ہمارے 100 سے زیادہ ارکان اسمبلی ہیں۔ مخصوص نشتیں دی نہیں جا رہیں۔ جو بھی ایوان میں تنقید کرتا ہے اس کے خلاف انتقامی کارروائی کر کے مقدمات درج کروا دیے جاتے ہیں۔ اراکین کے گھروں پر چھاپے مار کر خاندانوں تک کو ہراساں کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے آدھے سے زیادہ اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ ہم نے ڈی چوک پر کارکنوں کو فائرنگ کر کے مارنے کی مذمت کے لیے اجلاس کی ریکوزیشن جمع کروائی ہے، لیکن اراکین کو ڈرایا جا رہا ہے کہ وہ اجلاس میں آئے تو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس کا مقصد ہے کہ ہم اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہ کر سکیں۔

’ان حالات میں بھی ایوان کے اندر اور باہر ہم آواز اٹھا رہے ہیں۔ جبر و تشدد اور رکاوٹوں کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔‘

لانگ مارچ اور جلسے جلوسوں میں کمی

پی ٹی آئی کی جانب سے ماضی میں پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے  اورجلوس ہوتے رہتے تھے۔ لیکن اب قیادت کی کال پر بھی لانگ مارچ یا احتجاج کے لیے کارکنوں کی حوصلہ افزا تعداد دیکھنے میں نہیں آتی۔

امتیاز شیخ کے مطابق: ’جیسے ہی بانی پی ٹی آئی احتجاج کی کال دیتے ہیں پوری پنجاب پولیس روکاوٹیں کھڑی کرنے اور گرفتاریوں پر لگ جاتی ہے۔ مجھ سمیت پنجاب کی پوری قیادت کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ چھپتے پھر رہے ہیں تاکہ باہر رہ کر کردار ادا کرتے رہیں۔

’ہمارے بیشتر رہنما گرفتار ہیں اور جو بچے ہیں انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ زیادہ تر جلسے اور احتجاج خیبر پختونخوا میں ریکارڈ کرائیں گے۔ چند دن میں ڈی چوک کارکنوں پر گولی چلائے جانے کے خلاف مرکزی احتجاج ہو گا۔‘

جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی قیادت زمینی حقائق سے لاعلم لگتی ہے۔ کارکنوں کو آئے روز احتجاج کی کال دے کر پولیس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں حکمت عملی کے تحت سیاست کرنا چاہیے۔

’کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن کارکنوں کو جس طرح تھکایا جا رہا ہے وہ اب جلسے جلوسوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ دو بار کال کے باوجود باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوئے۔ صرف خیبر پختونخوا میں حکومتی وسائل سے ہی لوگوں کو نکالا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی نے اپنے طرز عمل سے پنجاب کے ایوانوں میں اور باہر سیاسی استحکام پیدا کر رکھا ہے۔ حکومت کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ مریم نواز حکومت پر اپوزیشن کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ جو بھی احتجاج کریں گے طاقتور حلقوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست