وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان نے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے میں ایئر فورس کے حاضر سروس ارکان کی تعیناتی کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے میں کام کرنے والے 20 ہزار سے زائد ملازمین کی اکثریت نااہل یا ناکارہ ہے اور ان کی بڑی تعداد کو میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی وجوہات کی بنا پر بھرتی کیا گیا تھا۔
غلام سرور خان نے گذشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے اخراجات اس کی آمدن سے زیادہ ہیں اور ادارے کی صفوں میں انتشار ہے، جب کہ ملازمین میں حوصلے کی کمی ہے۔
غلام سرور خان پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی پیر سید فضل علی شاہ جیلانی کی جانب سے کیے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ پی آئی اے میں پاکستانی ایئر فورس کے حاضر سروس ملازمین کو خصوصی تنخواہوں پر بھرتی کیا گیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو ان کے نام، عہدے، قابلیت اور تجربہ کیا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلام سرور خان نے پاکستان ایئر فورس کے ایئر مارشل ارشد ملک سمیت تعلق رکھنے والے ان نو افسران کی تفصیل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کی ہے جو پی آئی اے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وزیرِ ہوابازی نے کمیٹی کے سامنے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی تعیناتی کا فیصلہ اس وقت کیا گیا تھا جب سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشرف رسول کی برطرفی کا حکم دیا تھا۔ یہ فیصلہ ایک آڈٹ کے بعد کیا گیا تھا جس میں پتہ چلا تھا کہ قومی ہوائی کمپنی کو 402 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔
اس سال کے شروع میں ایئر فورس کے باوردی ملازمین کی بھرتی کا فیصلہ کیا گیا تھا جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اگلے تین سے چار برس تک خدمات سرانجام دیتے رہیں گے اور وہ بجٹ، مالیات، غذا، اور ہیومن ریسورس کے شعبوں کی سربراہی کریں گے۔
اس وقت بتایا گیا تھا کہ اس کا مقصد پی آئی اے کو درپیش بھاری خسارے سے نمٹنا اور ادارے کی تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانا ہے۔
اس نئے ڈھانچے کے تحت فیصلہ ہوا تھا کہ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایئر فورس کے چیف ہوں گے، جب کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے آٹھ دوسرے افسران کو تعینات کیا جائے گا۔
غلام سرور خان نے ان تمام عہدے داروں کی فہرست قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کی، جس میں ان کے ایئر فورس میں رینک، پی آئی اے میں عہدے، اور ان کی تعلیمی قابلیت کی تفصیل شامل تھی۔
فہرست کے مطابق ایئر مارشل کے علاوہ ان افسران میں چھ ایئر کموڈور، ایک ونگ کمانڈر اور ایک سکواڈرن لیڈر شامل ہیں۔
پی آئی اے کا بوجھ
وزارتِ مالیات کے مطابق اگست کے آخر میں پی آئی اے نے ایک ہزار سے زائد ملازموں کو ’فالتو‘ کہہ کر فارغ کر دیا تھا، جس کا مقصد ادارے کو ہر ماہ ہونے والے دو ارب سے زیادہ کے نقصان پر قابو پانا تھا۔
ادارہ حالیہ مہینوں کے دوران ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے پر روپے کی قدر میں کمی سے مزید مسائل کا شکار ہو گیا تھا۔
پی آئی اے کے مستقل ملازمین کی تعداد ساڑھے 14 ہزار کے قریب ہے، جب کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ یہ شرح فی جہاز تقریباً پونے چار سو ملازم بنتی ہے جو دنیا کی اکثر کمرشل ہوائی کمپنیوں کے مقابلے پر زیادہ ہے۔