عورت کے لیے انسانیت سوز سزائیں

تاریخ میں عورت کو جس طرح کی انسانیت سوز سزائیں دی جاتی رہی ہیں، آج کے معاشروں میں اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

(پبلک ڈومین)

سزا کا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسانی فطرت میں بدی اور شر ہے۔ اس کی اصلاح اُسی وقت ہو سکتی ہے جب سخت سزاؤں کا نفاذ ہو گا اور لوگ ڈر اور خوف سے جرائم سے باز آ جائیں۔

 اب چونکہ عورت کو کمزور سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی کہ وہ مرد کے مقابلے میں کم عقل ہے اس لیے اُسے کنٹرول کرنے کے لیے پدرسری نظام میں مرد کو یہ حق مل گیا کہ وہ عورت کی شخصیت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالے اور اس کی شناخت ختم کر کے اُسے اپنے تسلط میں لے آئے۔

 اس کی ابتدا گھریلو تشدد سے ہوئی لیکن بعض ایسے جرائم روشناس کرائے گئے کہ جن میں پورا معاشرہ شریک ہو گیا۔ اس کا سب سے بڑا جرم یہ قرار پایا کہ وہ اپنے مالک سے بے وفائی کرتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلقات پیدا کرے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں اس کی کڑی سزائیں رکھی گئیں کیونکہ اس کو جرم سمجھا جاتا تھا کہ وہ بچے کی پیدائش میں ملاوٹ کر رہی ہے۔

اس جرم پر اُسے سنگسار کیا جاتا تھا، زندہ جلایا جاتا تھا، قتل کیا جاتا تھا اور روس میں یہ روایت تھی کہ اُسے آدھا زمین میں دفن کر کے جسم کے آدھے حصے کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا جہاں وہ بھوک پیاس اور آب و ہوا کی وجہ سے نقاہت سے آہستہ آہستہ مر جاتی تھی۔

عورت پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ بہت زیادہ بولتی ہے۔ اُس کا زیادہ بولنا بھی شوہر کو برا لگتا تھا اور اس کے لیے کچھ قوانین بھی بنائے گئے۔ اس کے علاوہ  یورپ میں خاص طور سے عورتوں کو سزا دینے کے لیے ایسی مشینیں بنائی تھیں جو اُنہیں سخت جسمانی اذیتیں دے کر یا تو معذور بنا دیتی تھیں یا اُن کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی تھیں۔

مثلاً ایک ’ہسپانوی گدھا‘ نامی مشین بنائی گئی جس پر برہنہ عورت کو بٹھا دیتے اور اُس کے اعضائے مخصوصہ کو چیرتے ہوئے عورت کے دو ٹکڑے ٹانگوں کے درمیان سے کر دیے جاتے۔ اس بھیانک مشین کو لکڑی کا گھوڑا بھی کہتے تھے۔ اس مشین پر برہنہ عورت کو بٹھا کر اُس کے اعضائے مخصوصہ کو چیر کر ایک طرح کا مزہ بھی حاصل کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین کے ختنے بھی کیے جاتے جو بنا اذیت کے ممکن نہ تھے اس طرح کی کاٹ پیٹ کے بعد عورتوں کی اندام نہانی بہت سی بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتی تھی۔ 15 سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا۔ آج بھی افریقہ کے کچھ علاقوں میں اور مصر میں یہ رسم جاری ہے گو کہ اس میں بہت کمی آ گئی ہے۔

جو لڑکیاں غیرشادی شدہ مائیں بن جاتیں اُن کو بہت اذیت والی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایک مشین جس کو ’بریسٹ رِپر‘ کہا جاتا تھا۔ ان کے ذریعے اُن کے بریسٹ جسم سے علیحدہ کر دیے جاتے۔ زیادہ اذیت دینے کے لیے اس مشین کو سرخ گرم کر کے اُن خواتین کے بریسٹ جسم سے علیحدہ کیے جاتے۔ اس طرح اگر وہ بچ بھی جاتیں تو بریسٹ کے بغیر زندگی کاٹتیں اور معاشرے میں تضحیک اور تذلیل کا باعث بنی رہتیں۔

 اسی طرح زبان بندی کے لیے ایک ایسا آلہ بنایا گیا  جس کو Seold's Bridal کہا جاتا۔ یعنی زیادہ باتیں کرنے والی بیوی کی اس عادت کو لگام ڈالنے کے لیے یہ مشین بنائی گئی۔ خاوند عدالت یا مذہبی عدالت سے رجوع کرتا اور استدعا کرتا کہ میری بیوی چونکہ زیادہ باتونی ہے اس لیے اس کو کنٹرول کیا جائے۔ عدالت اُس کو یہ آلہ پہنانے کا حکم دے دیتی۔ اس کے بعد اگر وہ زبان بھی ہلاتی تو اس میں لگے لوہے کے کیل اُس کی زبان کو زخمی کر دیتے۔ شیکسپیئر کے دور میں آئرلینڈ اور انگلینڈ میں یہ آلہ استعمال ہوتا بلکہ شیکسپیئر کا ڈراما ’ٹیمنگ آف دا شریو‘ اسی بارے میں ہے۔

اس کے بعد شوہر اپنی بیوی کو اپنے ساتھ جگہ جگہ باہر لے جاتا اور صرف اُس کی تذلیل کی غرض سے باہر کے لوگوں کو کہتا کہ یہ میری بیوی بڑی باتونی ہے عدالت نے اس کو سزا دی ہے لہٰذا تم بھی اُس کے منہ پر تھوکو اور اس طرح اپنی ہی بیوی کی اس قدر تذلیل کی جاتی۔

بچے اپنی ماں کی اس قدر بے عزتی پر روتے ہوئے اُس کے ساتھ ساتھ چلتے۔ خاوند کو بیوی کی اس قدر تذلیل کرنے کے لیے قانون اس کا جواز فراہم کرتا۔ مردوں کے اس ظالمانہ رویے کے باوجود عورت مجبور تھی کہ وہ شوہر کے ساتھ رہے کیونکہ معاشرتی دباؤ اسے مجبور کرتا۔ اُسے اُس کی غربت اور بھوک کا خوف اُسے مجبور کرتا کہ وہ شادی کو قائم رکھے۔

عورت کو سزا دینے کے طریقے کار یہیں ختم نہیں ہو جاتے بلکہ دوسرے اور طریقوں سے اُسے سخت سزائیں دی جاتیں جن میں دوسری بہت سی مشینیں استعمال کی جاتیں مثلاً جن عورتوں کو جادوگرنی قرار دیا جاتا یا جو عورتیں زنا کی مرتکب پائی جاتیں ان عورتوں کو آرے سے دو ٹکڑے کر دیا جاتا۔ پہلے اُن کو اُلٹا لٹکا یا جاتا پھر اُن کے اعضائے مخصوصہ پر آری چلائی جاتی جس سے اُن کے دوٹکڑے ہو جاتے تھے۔

اسی طرح ایسی عورتیں جو حمل ضائع کرنے کی مرتکب ہوتیں تو اُن کو Pear of Anguish مشین کے ذریعے سزائیں دی جاتیں۔ اس مشین کو عورت کی اندام نہانی میں ڈال دیا جاتا پھر آہستہ آہستہ اس کے کرینک کھولے جاتے جس سے عورت کے اعضائے مخصوصہ اور اندرونی حصے چیر دیے جاتے۔ اس مشین سے جادوگرنیوں اور ہم جنس پرستوں کو بھی سزائیں ملتی۔ ہر عورت کی جو اس مشین کے ذریعے سزا پاتی اُس کی موت یقینی تھی۔

تاریخ میں فاتح قوم کی سب سے بڑی انتقامی کارروائی یہ ہوتی تھی کہ شکست کھانے والی قوم کی عورتوں کو ریپ کر کے فتح کا جشن مناتے تھے۔ الجزائر میں جب فرانس کے خلاف جنگ آزادی لڑی جا رہی تھی تو فرانسیسی فوجی گاؤں میں جا کر اُن مردوں کی بیویوں کو ریپ کرتے جو اُن کے خلاف لڑ رہے تھے۔ بوسنیا میں سربین لوگوں نے منظم طریقے سے عورتوں کو ریپ کیا اور اُنہیں اُس وقت تک کیمپ میں رکھا جب تک کہ وہ حاملہ نہیں ہو گئیں۔ یہ عورتیں بھی بچوں کی پیدائش کے وقت اُنہیں اسپتال میں چھوڑ کر غائب ہو گئیں۔

برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں گاؤں دیہات کی پنچایتیں لڑکی کے خاندان کے کسی جرم پر لڑکی کے گینگ ریپ کا فیصلہ دے دیتی ہیں جیسا مختاراں مائی کے کیس کے سلسلے میں ہوا تھا۔ پنجاب میں انتقامی کارروائی کے طور پر عورت کو برہنہ کر کے گاؤں میں گھمایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان میں جہیز نہ لانے پر بھی عورتوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

سندھ میں کاروکاری کے نام پر اور دوسرے صوبوں میں عزت کے نام پر عورت کو قتل کرنا باعث فخر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی عورتوں کے ساتھ تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ اروندھتی رائے نے اپنی کتاب ’سرمایہ داریت، ریاستی جبر اور مزاحمت‘ میں لکھا ہے کہ آدی واسی لوگوں کے ساتھ اذیت ناک سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

مثلاً ایک آدی واسی سکول ٹیچر سونی سوری کو بستراڑ سے گرفتار کیا گیا اور زیر حراست اس پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ اس کی اندام نہانی میں پتھر گھسیڑے گئے تاکہ وہ اس بات کا اظہار کرے کہ وہ ماؤ نوازوں کے لیے پیغام رساں کا کام کرتی تھی۔

 کلکتہ کے ایک اسپتال میں اس کے جسم سے پتھر نکالے گئے اور پھر لوگوں کے غم و غصے اور احتجاج کے بعد اُسے طبی معائنے کے لیے بھیجا گیا۔ عدالت عظمیٰ کی حالیہ پیشی میں یہ پتھر چیف جسٹس کو دکھائے گئے۔ اُن کی جدوجہد کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ سونی سوری بھی جیل میں پڑی ہوئی ہے۔ جبکہ وہ پولیس سپرنٹنڈنٹ جس نے تفتیش کی تھی اپنی بہادری کے انعام کے طور پر یوم جمہوریہ کو پریذیڈنٹ پولیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جب تک معاشرہ عورت کو برابری کا مقام نہیں دے گا اس سے تعصب نفرت اور انتقامی جذبات کو ختم نہیں کرے گا اُس وقت تک کسی بھی معاشرے کی ترقی ممکن نہیں ہو گی۔ یہ ظالمانہ سزائیں عورت کے وجود کو ختم نہیں کر سکیں اور آج عورت اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ