گوجرانوالہ کے نواحی علاقے واہنڈو میں پولیس کے مطابق پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کو 22 فروری کو مبینہ ریپ کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا جس کے تین دن بعد، یعنی 25 فروری کو، ’(قاتل) اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ‘ کا نشانہ بن گیا۔
تاہم اس صورت حال کے بعد پھر جو مرحلہ درپیش تھا، وہ ملزم کی نعش کو دفنانے کا تھا۔
اس حوالے سے پرانی واہنڈو گاؤں کے نمبردار حافظ ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گاؤں کے لوگوں کا قاتل کا نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کے فیصلے کے بعد اب اُسے گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھے، حتی کہ خاکروب بھی پیسوں کی پیشکش کے باوجود قبر تیار کرنے پر نہیں مان رہے تھے۔‘
ان کے بقول: ’آخرکار ایک کرین کا اہتمام کیا گیا، جس کے ذریعے گاؤں سے باہر ایک قبرستان میں کئی فٹ گہرا گڑھا کھودا گیا، پھر قاتل کی نعش کو اس میں رکھ کر مٹی ڈال دی گئی۔‘
واہنڈو کے رہائشی محمد کامران، جنہوں نے ملزم حسن عرف جھارے کو جائے وقوع سے پکڑا، نے انڈپینڈنٹ اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بچی کی گمشدگی کو کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔ گاؤں کا ہر فرد بچی کی تلاش میں سرگرداں تھا، لیکن پورے گاؤں میں تلاش کے باوجود کوئی نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں انہیں دو ایسے لڑکوں کا خیال آیا جو اسی قماش کے تھے۔‘
جب انہوں نے ’مقتولہ ایمان فاطمہ کے والد عبدالشکور کے ساتھ ان دونوں لڑکوں میں سے ایک پر شک کا اظہار کیا تو اس کے بعد کئی انگلیاں حسن عرف جھارے کے گھر کی جانب اٹھنے لگیں۔ اب بھی لوگ شک تو کر رہے تھے لیکن اس کے گھر جانے کو کوئی تیار نہیں تھا، کیونکہ حسن عرف جھارا منشیات کا عادی اور اسلحہ بھی اپنے پاس رکھتا تھا۔‘
کامران بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مزید ’دو ساتھیوں کے ساتھ جھارے کے گھر کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ اس کے گھر پہنچے تو دروازہ مقفل تھا۔ انہوں نے گھر کی بیرونی دیوار پھلانگی اور اندر داخل ہو گئے۔ جب انہوں نے جھارے کے بارے میں استفسار کیا تو گھر کی چھت پر بیٹھا حسن عرف جھارا خود ہی بول اٹھا کہ ’میں ادھر اوپر بیٹھا ہوں۔‘ جب اسے نیچے آنے کو کہا گیا تو وہ بڑے پُراعتماد طریقے سے نہ صرف نیچے آیا بلکہ کمروں کی تلاشی بھی کروانے لگا۔‘
محمد کامران کے مطابق ایک کمرے کی چھت گری ہوئی تھی اور اس میں مٹی کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ابھی تک ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی تھی جس سے شک یقین میں بدلتا، لیکن ایک جگہ مٹی بھربھری نظر آئی، جیسے ابھی کچھ دیر قبل اسے کھود کر دوبارہ برابر کیا گیا ہو۔
محمد کامران نے انڈپینڈنٹ اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ چیز تھی جسے دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا کہ ’بچی ادھر ہی ہے اور حسن عرف جھارا ہی قاتل ہے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں کو کدال لانے کا کہا تاکہ مٹی کھودی جا سکے۔ اس سے پہلے کہ ان کے ساتھی کدال لینے جاتے، جھارا خود ہی کہنے لگا ’میں لاتا ہوں کدال‘ اور باہر پلٹا۔ لیکن انہوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ ’اسے پکڑو اور باہر نہ جانے دو، بچی اسی کے پاس ہے۔‘
’پھر جب کھدائی کی گئی تو بچی کی نعش گٹھڑی میں بندھی ہوئی وہاں سے برآمد ہو گئی۔
’اس سارے عمل کے دوران جھارے کے گھر کے باہر مجمع لگ چکا تھا اور یہ خبر پھیل گئی کہ ایمان کی نعش جھارے کے گھر سے مل گئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اُردو نے جب اس حوالے سے ایمان فاطمہ کی والدہ عائشہ صدیقہ سے بات کرنا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی 22 فروری کی سہ پہر سے لاپتہ تھی۔ ان کے خاوند نے متعلقہ تھانے میں اغوا کا مقدمہ بھی درج کروا دیا تھا۔ جب انہیں مغرب کے بعد پتہ چلا کہ ان کی بیٹی مل گئی ہے تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچنے لگیں کہ کسی کو ترس آ گیا ہو گا اور اس نے ان کی بیٹی کو جانے دیا، لیکن جب انہوں نے اپنے خاوند کے بازوؤں پر اپنی ایمان فاطمہ کی نعش دیکھی تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔
وہ مزید یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جب ان کی بیٹی کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا تو تب قاتل حسن عرف جھارے کی ماں کبھی ان کے پاس آ رہی تھی اور کبھی جا رہی تھی، انہیں دلاسہ دے رہی تھی۔ لیکن جب تیسری بار آئی تو کہنے لگی ’نہ رو تئیئے، او تے ہُن کسے دے ہتھی چڑھ گئی ہونی‘ (نہ رو بیٹی، وہ تو اب کسی کے ہاتھ لگ گئی ہو گی)۔
اس بات کی انہیں تب تو سمجھ نہ آئی، لیکن ’اس سارے واقعے کے بعد سمجھ آتی ہے کہ وہ اس معاملے سے واقف تھی، اسی لیے وہ یہ الفاظ کہہ رہی تھی۔‘
ایمان فاطمہ کی والدہ عائشہ صدیقہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی بیٹی کا قاتل قرار واقعی سزا پا چکا ہے تو انہیں اس سے دلی تسلی ہوئی، لیکن ان کی خواہش تھی کہ ’جیسے اذیت ناک طریقے سے گلا دبا کر اور تشدد کر کے اس نے میری بیٹی کی جان لی، قاتل کو بھی ایسے ہی چوک میں کھڑا کر کے اسی طریقے سے مارا جاتا۔‘
اس سارے واقعے کی بابت جب انڈپینڈنٹ اُردو نے پولیس سے بات کی تو ایس ایس پی انویسٹی گیشن رضوان طارق نے بتایا کہ ’ملزم کو حراست میں لیے جانے کے بعد مزید تحقیق پر یہ پتہ چلا کہ وہ منشیات کا عادی تھا اور اس سے پہلے بھی اپنی ہی فیملی میں ایک بچی کے ساتھ ایسے قبیح فعل میں ملوث رہا ہے، لیکن تب آپسی صلح صفائی کی وجہ سے وہ قانون کی گرفت میں نہ آ سکا تھا۔ اس بار، چونکہ موقعے سے ہی اس کی درندگی کے ثبوت برآمد ہو چکے تھے، تو ملزم نے پولیس حراست میں بچی کو زیادتی کے بعد جان سے مارنے اور اپنے ہی گھر میں دفنانے کا اعتراف کر لیا۔‘
ملزم کے مارے جانے کے حوالے سے پولیس ترجمان نے جو بیان جاری کیا، اس کے مطابق ’ملزم جھارا کو 25 فروری کی رات نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ ملزم کے ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور ملزم کو چھڑوا کر لے گئے۔ لیکن اگلے ہی ناکے پر پولیس سے مڈبھیڑ ہو گئی، اور جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو دورانِ سرچ ملزم کی لاش برآمد ہوئی، جو اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جان سے جا چکا تھا۔‘