روس کے صدر ولادی میر پوتن نے جمعرات کو کہا کہ روس اصولی طور پر امریکہ کی طرف سے یوکرین میں جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کرتا ہے، لیکن انہوں نے چند نکات کی مزید وضاحت مانگی اور کچھ شرائط رکھ دی ہیں۔
فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، ہزاروں جان سے گئے اور زخمی ہو چکے ہیں، کئی شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ماسکو اور مغرب کے درمیان کئی دہائیوں کے سب سے بڑے تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
پوتن کی امریکہ کی جنگ بندی کی تجویز کے لیے مشروط حمایت بظاہر واشنگٹن کے لیے خیرسگالی کا اشارہ دینے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مزید مذاکرات کا دروازہ کھولنے کے لیے تھی۔
لیکن پوتن نے کہا کہ بہت سے اہم معاملات حل کرنا ضروری ہے اور کوئی ایسا معاہدہ ہو جو اس تنازعے کی بنیادی وجوہات ختم کرے۔ روس نے اپنے 2022 کے حملے کو ایک ’خصوصی فوجی آپریشن‘ قرار دیا جس کا مقصد یوکرین کو ’نازی ازم سے پاک‘ کرنا اور نیٹو کے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔
پوتن نے کریملن میں صحافیوں کو بتایا: ’ہم لڑائی روکنے کی تجاویز سے متفق ہیں، یہ خیال درست ہے، اور ہم یقیناً اس کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس بنیاد پر آگے بڑھیں کہ یہ جنگ بندی ایسی ہونی چاہیے جو طویل مدتی امن کی طرف لے جائے اور اس بحران کی اصل وجوہات کو ختم کرے۔‘
انہوں نے متعدد معاملات کی وضاحت کی ضرورت پر زور دیا اور ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، جو کہتے ہیں کہ انہیں امن قائم کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے، کہ وہ جنگ ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ماسکو اور واشنگٹن دونوں ہی اب اس تنازعے کو ایک مہلک پراکسی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو تیسری عالمی جنگ میں بدل سکتا تھا۔
ٹرمپ، جنہوں نے کہا کہ وہ روسی صدر سے فون پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، نے پوتن کے بیان کو ’بہت امید افزا‘ قرار دیا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ ماسکو ’صحیح فیصلہ‘ کرے گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خصوصی ایلچی، سٹیو وِٹکوف، ماسکو میں روسی حکام کے ساتھ امریکی تجویز پر مذاکرات میں مصروف ہیں، جس پر یوکرین پہلے ہی رضامند ہو چکا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوگا کہ آیا ماسکو معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ نے کہا: ’اب ہم دیکھیں گے کہ آیا روس اس پر تیار ہے یا نہیں، اور اگر وہ تیار نہیں ہے، تو یہ دنیا کے لیے بہت مایوس کن لمحہ ہوگا۔‘
یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے کہا کہ پوتن جنگ بندی کی تجویز مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن وہ ٹرمپ کو یہ براہ راست کہنے سے گریزاں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیلنسکی نے رات کو ویڈیو پیغام میں کہا: ’اسی لیے ماسکو میں وہ جنگ بندی پر ایسی شرائط لگا رہے ہیں، تاکہ کچھ بھی نہ ہو، یا کم از کم یہ جتنا ممکن ہو مؤخر رہے۔‘
دوسری جانب سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پوتن سے فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ سعودی عرب یوکرین میں سیاسی حل کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالاس نے جمعرات کو کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ روس جنگ بندی کو قبول کر لے گا، لیکن شرائط کے ساتھ۔
کینیڈا میں جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقعے پر روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کالاس نے کہا کہ امریکہ نے اتحادیوں کو بتایا ہے کہ اسے یقین ہے کہ روس مذاکرات کو طول دینے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر معاملے کو غیر واضح رکھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
کسی بھی تاخیر سے روس کو مزید وقت ملے گا تاکہ وہ یوکرین کی آخری فورسز کو روس کے مغربی کورسک علاقے سے نکال سکے۔ ماسکو یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ کیئف مستقل طور پر ان علاقوں کو چھوڑ دے جن پر روس نے قبضہ کر رکھا ہے، اس مطالبے کو یوکرین مسترد کرتا ہے۔
یوکرین اور اس کے اتحادی روس کے 2022 کے حملے کو نوآبادیاتی طرز کی زمین پر قبضے کی کوشش قرار دیتے ہیں، اور زیلنسکی بارہا روسی افواج کو شکست دینے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ روسی افواج یوکرین کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہیں اور وہ 2024 کے وسط سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ اس بات پر تبادلہ خیال کر رہی ہے کہ یوکرین کون سا علاقہ اپنے پاس رکھے گا یا کھوئے گا، نیز ایک بڑے بجلی گھر کے مستقبل پر بھی بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے اس کا نام نہیں لیا لیکن غالباً وہ یوکرین کے روس کے زیر قبضہ زاپوریژیا نیوکلیئر پلانٹ کا حوالہ دے رہے تھے، جو یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات سے پلانٹ میں حادثے کا خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔
پوتن اس تنازع کو مغرب کے ساتھ ایک وجودی جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو ان کے بقول 1989 میں دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد روس کو نیچا دکھانے اور نیٹو کی توسیع کے ذریعے ماسکو کے اثر و رسوخ کے علاقوں میں مداخلت کا مرتکب ہوا، جس میں یوکرین بھی شامل ہے۔
پوتن نے کہا کہ روسی افواج پورے محاذ پر آگے بڑھ رہی ہیں اور جنگ بندی سے اس بات کی ضمانت ملنی چاہیے کہ یوکرین اسے صرف اپنی فوج کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے استعمال نہ کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ٹرمپ کو اس معاملے پر فون کر سکتے ہیں۔
امریکہ نے منگل کو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی اور انٹیلی جنس شیئرنگ دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا، اس کے بعد کہ کیئف نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کے لیے تیار ہے۔