نجام الدین کی بستی اور پیسوں کا غلہ

امیر خسرو کے مزار پر بِتائی ہوئی چند گھڑیاں جو آج بھی دل پر نقش ہیں۔

(پبلک ڈومین)

مَیں دہلی میں تھا، دارین شاہدی اور محمود فاروقی میرے ساتھ تھے۔ ہم بستی نظام الدین اولیا گھوم رہے تھے۔

محمود فاروقی کہنے لگا، چل میاں پہلے تجھے تکے کھلاتے ہیں۔

یہ جگہ عبد الرحیم خانِ خاںان کے مقبرے کے ساتھ تھی۔ ایک تکے والا وہاں ریڑھی لگائے بیٹھا تھا۔ ہم تینوں وہیں کھڑے ہو لیے۔ محمود نے کہا، ’میاں رمضے ذرا بڑھیا سے تکے لگا دو۔‘

اس نے کہا، ’میاں بھائی بڑھیا تو نہیں ہیں چٹخارے والے ہیں، کہو تو لگا دیتا ہوں۔‘

’ہاں ہاں وہی،‘ دارین نے سر ہلایا۔

کہنے لگا، ’بھئی یہیں چوکی پر بیٹھ جاؤ۔ مَیں لگاتا جاتا ہوں، آپ کھاتے جائیے، حساب بعد میں دیکھیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیجیے، ہم پاؤں پسار کے بیٹھ گئے اور تکے یعنی سیخ کباب شروع ہو گئے۔ ہم کھاتے جاتے تھے اور وہ لگاتا جاتا تھا۔ اب سمجھو کوئی سو سیخیں تو کھا گے گئے ہوں گے۔ مَجھے لگا کہ بھئی اِس کا حساب تو ہزاروں میں چڑھ گیا ہو گا۔ دس بیس ہزار کا قصہ پاک ہو گیا ہو گا۔ لیکن جب اُس نے حساب بتایا تو فقط 1200 روپے بنے۔ ارے تیری خیر، مَیں نے کہا، ’میاں صرف اِتے سے پیسے؟‘

بولا، ’بھائی میاں یہاں بھینس کی سیخیں ملتی ہیں، وہ اِتے ہی کی ہوتی ہیں، ہاں سور کی ذرا مہنگی ملتی ہیں مگر وہ ہم لگاتے نہیں۔ پھر آپ بھی تو مسلمان ہو۔ آپ کو کیوں کھلائیں گے؟‘

اس کا اتنا کہنا تھا کہ مَیں شک میں جا پڑا، دہلی کے مضافات میں سورورں کے اِجڑ کے اجڑ پالے جاتے تھے۔ کہیں وہی نہ ہو! اور بھینس تو مَیں نے پچھلے پندرہ دن میں یہاں ایک بھی نہیں دیکھی تھی۔ اور سیخیں بھی عجب تھیں۔ اُس کے بعد کچھ نہ پوچھیے میری حالت کیا ہوئی۔

میں نے کہا، ’میاں رمضے مَیں پاکستانی ہوں، وہاں تو بھینسوں کی سیخ ایسی نہیں ہوتی، اُس کا ذائقہ ذرا اِس سے الگ ہوتا ہے۔‘

وہ بولا، ’حجور وہاں گدھے کا ذائقہ ہوتا ہے، یہاں کی سیخ میں وہ کیسے آئے گا؟‘

اب تو مجھے غصہ ہی آ گیا، کہا، ’دیکھو بھائی وہاں گدھے کھانے کے کام تو آ سکتے ہیں آپ کی طرح اُن سے ٹر ٹر بولنے کا کام نہیں لیا جاتا۔‘ اور محمود سے کہا، ’دیکھو بھائی یہاں سے جلد نکلو مجھے نظام الدین اولیا کے مزار پر جانا ہے، امیر خسرو سے ملنا ہے اور اُس کِھرنی کے پیڑ کو چُھونا ہے جس کی بابت غالب نے اپنے ایک شاگرد سے کہا تھا، میاں وہاں تین کوس کیوں چل کر گئے، میری حویلی کے پچھواڑے میں کھڑے اِس پیپل کی پپلیاں کھا لیتے تو آپ پر چودہ طبق روشن ہو جاتے۔‘

ہم وہاں پہنچے۔ وہ کِھرنی کا پیڑ ابھی وہیں موجود تھا جس کے سائے میں امیر خسرو بیٹھا راگ سُر بناتا تھا۔ بہت دیر مَیں اُس پیڑ کی بوڑھی سلوٹوں میں گم رہا جس میں اب سیکڑوں چھید کر کے چراغ دھر دیے گئے ہیں۔ اِن چراغوں کی لَووں اور روغن نے پیڑ کو زیتونی بنا کر رکھ دیا ہے، ہاں مگر ابھی تک وہی شاخیں لہلہا رہی ہیں، صدیوں کے افسانے سنا رہی ہیں۔ سامنے اُس پیڑ کے خواجہ حسن نظامی کا کمرہ ہے، اُس کمرے میں خواجہ صاحب کی باقیات پڑی دہلی کی ویرانیوں کا نوحہ پڑھتی ہیں۔

بہت دیر امیر خسرو کے اُس کھرنی والے پیڑ سے ہم سخن رہا، جیسے وہ مجھے اُٹھنے نہ دیتا تھا اور کہتا تھا، میاں ناطق مدتوں کے رفیق میرو غالب کے بعد ہمارے ایک ہم راز آئے ہو، دو گھڑی اور گزار لو، بہت کچھ ہم سخنیاں ہوئیں، دل کی پہیلیاں جی ہی جی میں کہیں۔ اُدھر محمود اور دارین ہمیں پکارتے تھے، کہ ’میاں نظام الدین بلاتے ہیں، مگر ہم نے کہا بھائی نظام الدین جانے اور اُس کے حضور منتیں ماننے آئے اُس کے مرید جانیں، ہمیں اُن سے سروکار کم ہے، اُن کے مرید امیر خُسرو ہماری مجلس کے آدمی ہیں، بس اُنھیں سے ملیں گے۔ آپ نجام الدین سے ملیے۔‘

تب اُٹھے ہم نے کھِرنی کے پیڑ سے تانبا بدن جدا کیا اور دو بوسے اسے دیے۔ ایک ملن کا، ایک جدائی کا۔ بعد اِس کے امیر خسرو کی چارپائی سے جا لگے۔ اُسے کہا دیکھو میاں ترک زادے ہم کہاں سے آئے ہیں، دہلی کے مغرب میں اُدھر بہت دور، ملکوں کی بانٹ پڑنے کے سبب بہت ہی دور ایک بستی اوکاڑہ ہے، وہاں سے لمبے کوچ کر کے یہاں پہنچے ہیں، آپ اُٹھیو اور ہمارے من لگیو۔ امیر خسرو کی تربت پر ہمارا ہاتھ تھا اور دل سات صدیاں پیچھے اُن کے ساتھ تھا۔

امیر خسرو کے دائیں پہلو وہ مسقف دالان قوالی کا تھا، جس کا بڑا دروازہ دل پر ہیبت دھڑکاتا تھا۔ مگر ہماری نظر رہ رہ کر اُسی جانب لے جاتا تھا، ہم نے سوچا کھڑے تو ہم امیر خسرو کی قبر پر ہیں مگر نگاہ اِس مسجد نما عمارت سے نہیں ٹلتی، آخر آواز آئی میاں ناطق، یہی تو وہ جگہ ہے جہاں امیر خسرو کی روح بیٹھی ہے، جوگ جوگ قوالی گاتی ہے۔ یہیں اِسی عمارت میں نظام الدین کے حضور، یہ ترک بچہ کہہ مکرنیاں کہتا تھا، پہیلیاں بجھواتا تھا، اور مرشد پیارے کو دل کے حال سناتا تھا۔ مرشد اِسی مسقف عمارت میں بیٹھا مرید کا دل لبھاتا تھا۔

غرض بہت دیر ہم وہیں بسران کیے رہے۔ اِدھر ہمارے دوست ہمیں آوازیں دیتے رہے۔ بعد صد جبر کے ہم وہاں سے اُٹھے اور نظام الدین کی قبر پہ گئے، یہاں جالیاں تو سونے چاندی کی تھیں مگر ارد گرد کی نگاہیں پتھر کی تھیں۔ ایک صاحب جو گدی نشین کے صاحب زادے تھے، اُس کی آنکھیں عین زوار پر ٹِکی تھیں، اگر تو وہ من بھر لوہے کے غلے میں سو دو سو روپے ڈالتا تھا تو اُس پر نظام الدین کا وارث رحم کی نگاہ برساتا تھا ورنہ غضب کا پروانہ ہاتھ میں تھماتا تھا۔

ہم نے کہا ہم کیوں پیسے اِس میں ڈالیں، اتنے بڑے پیر تو ہم خود ہیں۔ نظام الدین ذرا شہرت زیادہ لے گیا تو کون سی قیامت آ گئی۔ یہاں کا غلہ بہت بھاری پاکستان سٹیٹ بنک کے لاکر جتنا ہو گا۔ اللہ جانے کتنے پیسے اُس میں تھے، پھر اُن کو دو سے ضرب دے دو کہ ہمارے روپے سے دگنے تھے۔ خیر وہ پیسے ہم اُس غلے سے نکال تو نہ سکتے تھے مگر نہ ڈالنے پر تو قادر تھے، اِس لیے نہیں ڈالے۔

یہ عالم دیکھ کر غلے کے پاس بیٹھا ہوا درویش زادہ ہم پر برہم ہونے لگا اور جھڑکی دینے ہی کو تھا کہ وہیں دارین شاہدی آڑے آیا، اُس نے کہا میاں یہ بڑا شاعر پاکستان سے آیا ہے اور ہمارا دوست بہت پیارا ہے۔ خبردار اِس کی طرف نگاہ لطف کی رہے۔ دارین کے مقام مرتبے سے وہ واقف خوب تھا۔ چنانچہ ہم پر غضب کی نظر واپس لی۔ ہم نے وہاں ایک پل کو سلام کیا اور واپس پھرے، حسرت سے کھِرنی کے پیڑ پر ایک نظر مکرر کی، اُس بلند پتھر کی عمارت پر دو آنسو ٹپکائے اور غالب کی قبر پر لوٹ کر آئے۔

جی ہاں وہی علی کا ملنگ جس کے بغیر دنیا کے کام بند تو نہیں ہوئے مگر ویسے اچھے چلے بھی نہیں۔ غالب کی قبر پر تو آ کر ہم لیٹ ہی گئے ہمارا بھائی تھا۔ اپنا اپنا لگا۔ نہ وہاں پیسوں کا غلہ تھا، نہ کوئی گھورنے اور ڈانٹنے والا تھا۔ نہ جیب سے پیسے نکالنے کے لیے بے چین تھا۔ اللہ اکبر

عجب آزاد مرد تھا، سب سے آزاد پڑا تھا

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی