امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں فائر بندی کے حوالے سے امید کا اظہار کیا ہے جب کہ اسرائیل کے حمایت یافتہ امدادی مراکز پر عام شہریوں کی اموات پر عالمی سطح پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جمعے کو صحافیوں کے پوچھے جانے پر کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کتنی قریب ہے، ٹرمپ نے جواب دیا ’ہمیں لگتا ہے اگلے ہفتے کے اندر جنگ بندی ہو جائے گی۔‘
امریکہ کی جانب سے یہ فائر بندی اس تباہ کن تنازعے کے دوران اس وقت کرائی جا رہی جب اس تنگ پٹی میں 56 ہزار سے زیادہ فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
فائر بندی کی کوشش سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت کے آخری دنوں میں شروع ہوئی تھی اور اب ٹرمپ کی نئی ٹیم کی حمایت سے جاری ہے۔
مارچ میں اسرائیل نے فائر بندی توڑتے ہوئے ایک بار پھر غزہ پر حملے شروع کر دیے تھے۔
اسرائیل نے دو ماہ سے زیادہ عرصے تک غزہ میں خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی ترسیل مکمل طور پر بند کر رکھی ہے جس پر قحط کے خدشات کے سامنے آئے ہیں۔
بعد ازاں اسرائیل نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے خوراک کی ترسیل کی اجازت دی جس میں امریکی سکیورٹی کنٹریکٹرز اسرائیلی فوجیوں کی نگرانی میں امداد تقسیم کرتے ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کے حکام نے جمعے کو کہا کہ یہ نظام امداد کے متلاشی لوگوں کی اجتماعی اموات کا سبب بن رہا ہے جب کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ پر الزام لگایا کہ وہ ’خود کو حماس کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔‘
عینی شاہدین اور مقامی حکام کے مطابق گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران امدادی مراکز پر فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں جس کی اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’بھوکے انسانوں کا قتل عام‘ قرار دیا گیا۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی امور کی ایجنسی یو این آر ڈبیلو اے کے سربراہ فیلیپ لازرینی نے کہا ’نیا امدادی نظام ایک قتل گاہ بن چکا ہے، لوگ خوراک لینے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
’یہ ظلم فوراً بند ہونا چاہیے اور امداد کی ترسیل دوبارہ اقوام متحدہ اور یو این آر ڈبیلو اے کے ذریعے ہونی چاہیے۔‘
وزارت صحت کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک 500 سے زائد افراد ان مراکز کے قریب خوراک کے انتظار میں مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے جمعے کو اس بارے میں کہا ’لوگوں کا صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں مارا جانا ناقابل برداشت ہے۔ خوراک کی تلاش موت کی سزا نہیں بننی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی طبی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بھی اس امدادی پروگرام کو ’انسانی ہمدردی کے نام پر قتل عام‘ قرار دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اخبار ہارٹز کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی کمانڈروں نے امدادی مراکز کے قریب بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے غیر مسلح لوگوں پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔
ہارٹز کے مطابق فوج کے قانونی مشیر (ملٹری ایڈووکیٹ جنرل) نے مبینہ ’جنگی جرائم‘ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے کو 80 فلسطینی اسرائیلی حملوں یا فائرنگ میں مارے گئے، جن میں 10 افراد امداد کے انتظار میں تھے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل کے مطابق جنوبی غزہ میں امدادی مرکز کے قریب چھ افراد مارے گئے جب کہ مرکزی علاقے میں ایک اور واقعے میں ایک شخص مارا گیا، جہاں فوج نے فائرنگ سے انکار کیا ہے۔
غزہ شہر کے جنوب مغرب میں ایک اور مقام پر امداد کے منتظر تین افراد اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔
شمالی غزہ میں اسامہ بن زید سکول پر بمباری سے آٹھ افراد جان سے گئے۔