رائے ونڈ میں 30 روپے کے تنازعے پر دو سگے بھائیوں کے قتل میں گرفتار مرکزی ملزمان کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت پر اپنے ردعمل میں مقتولین کے والد نے کہا ہے کہ اس سے ان کے بیٹے تو واپس نہیں آئیں گے، ’لیکن دو گھر اجڑ گئے۔‘
پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے بنائے گئے محکمہ کرائم کنٹرول (سی سی ڈی) لاہور نے تصدیق کی ہے کہ رائے ونڈ میں 30 روپے کے تنازعے پر دو سگے بھائیوں کے قاتل دونوں مرکزی ملزمان بدھ اور جمعرات کی رات پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
21 اگست کو پیش آنے والے اس واقعے میں پھلوں کی ریڑھی پر محض 30 روپے کے تنازعے پر دو سگے بھائیوں راشد اور واجد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے پولیس نے کہا کہ فی درجن کیلوں کی قیمت 130 کی بجائے 100 روپے طے کرنے پر ہونے والی تکرار جھگڑے میں بدل گئی اور دو پھل فروش بھائیوں اویس اور شہزاد نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ راشد اور واجد کو بلے کے وار کر کے مبینہ طور پر شدید زخمی کر دیا، جو بعدازاں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
واقعے کا مقدمہ مقتولین کے والد کی مدعیت میں اویس، شہزاد اور پانچ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا اور پولیس نے مرکزی ملزمان اویس اور شہزاد کو گرفتار کر لیا تھا۔
سی سی ڈی کی جانب سے جمعرات کو میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے ملزمان کو ساتھ لے جا کر چھاپہ مارا گیا، جہاں ملزمان کے ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے زیرحراست دونوں مرکزی ملزمان مارے گئے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کے ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے، جن کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔
محکمے نے مزید کہا کہ ’جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سی سی ڈی کی کاروائیاں جاری رہیں گی۔‘
’دو گھر اجڑ گئے‘
مقتول بھائیوں کے والد سعید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’21 اگست کا دن ان کی زندگی کا سب سے بھاری دن تھا۔ کاش یہ دن کسی دشمن کو بھی نہ دیکھنا پڑے۔ میرے بیٹوں کی جان صرف 30روپے کے لیے لے لی گئی۔‘
سعید اقبال نے بتایا کہ ان کے بیٹے راشد اور واجد دودھ کا کاروبار کرتے تھے۔ ’وہ برکی روڈ پر دکان میں دودھ پہنچا کر واپس گھر آرہے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ واپسی پر گھر والواں کے لیے فروٹ لاتے تھے۔ راستے میں پھل خریدنے کے لیے رُک گئے، جہاں ان کا ریڑھی کے مالک اویس اور ان کے بھائی سے جھگڑا ہوا۔
’ہماری معلومات کے مطابق وہ کیلے خریدنے لگے تو ملزم اویس نے 130 روپے فی درجن ریٹ بتایا، میرے بیٹے نے کہا کہ 100 روپے لگا لو، کیونکہ میرے پاس پانچ ہزار کا نوٹ ہے جبکہ 100 کھلا ہے، جس پر ان میں تکرار ہوگئی۔ یہ معمولی تکرار میرے دونوں بیٹوں کی جان لے گئی۔‘
ملزمان کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے حوالے سے مقتولین کے والد نے کہا کہ ’ان کے مرنے سے میرے بیٹے تو واپس نہیں آئیں گے، لیکن اتنی سی بات پر قتل کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ دو گھر اجڑ گئے۔‘
’پولیس مقابلوں میں 35 فیصد تک اضافہ‘
رواں سال قیام کے بعد سے مختلف جرائم میں ملوث ملزموں کے خلاف سی سی ڈی کی جانب سے سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور ہر واقعے میں ملوث قرار دیے گئے افراد کی اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے یا مارے جانے کا بیان جاری کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کسی واقعے کی وائرل ویڈیوز پر کچھ ہی گھنٹوں بعد پولیس کا ردعمل سامنے آتا ہے کہ یا تو ملوث ملزم/ ملزمان مارے گئے یا زخمی حالت میں گرفتار کر لیے گئے۔
اعداد و شمار کے مطابق سی سی ڈی کی کارروائیوں کے پیش نظر پولیس مقابلوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
پولیس ذرائع بتاتے ہیں کہ گذشتہ چار ماہ میں پنجاب کے مختلف شہروں میں کل 815 پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 480 ملزمان مارے گئےاور 335 کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔
ان کارروائیوں کے خلاف مختلف مکاتب فکر کے لوگ ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ چاہے پولیس کی نیت جرائم کا خاتمہ ہو لیکن کسی ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے پولیس مقابلے میں مارنا یا زخمی کرنا بہتری کا سبب نہیں بن سکتا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سی سی ڈی کی کارروائیوں کو ’ماورائے عدالت‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا: جرائم پر قابو پانے کے لیے ملک میں آئین و قانون اور ادارے موجود ہیں۔ پولیس کا پورا محکمہ اور ایجنسیاں مجرموں کو پکڑنے کا کام کر رہی ہیں۔ عدالتیں موجود ہیں، جو ایک نظام کے تحت سزا و جزا کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جس پر جرم ثابت ہو جائے اس کو سزائیں قانون کے مطابق دی جاتی ہیں، لیکن سی سی ڈی کے نام سے بنائے گئے محکمے کو ماورائے عدالت قتل عام کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔‘
اسد اقبال بٹ کا مزید کہنا تھا: ’آئین پاکستان کے تحت پولیس کسی جرم میں ملوث فرد کو ملزم کے طور پر عدالت میں پیش کر کے مجرم ثابت کر سکتی ہے، لیکن خود اس کا فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کوئی بھی ملزم مجرم ہے اور وہ اسے خود سزا دے دے۔‘
سی سی ڈی حکام کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو رواں ماہ پیش کی گئی تحریری رپورٹ میں رواں سال مارچ سے جولائی تک جرائم کی شرح میں ریکارڈ کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس مارچ میں صوبے میں پانچ ہزار71 چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جو جولائی میں کم ہو کر 2600 رہ گئیں۔ ان وارداتوں میں مجموعی طور پر 49 فیصد کمی کا دعویٰ کیا گیا۔
اسی طرح رپورٹ میں موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 32 فیصد، اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 78 فیصد اور قتل کے کیسوں میں 25 فیصد کمی کا دعویٰ کیا گیا۔
ایچ آر سی پی کے سربراہ اسد اقبال بٹ نے اس صورت حال میں عدالتوں اور پولیس کے ادارے کی موجودگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اگر تمام قانونی پہلو نظر انداز کر کے کھلے عام ملزموں کو مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے تو عدالتوں اور باقی پولیس کے اخراجات لوگ کیوں برداشت کر رہے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’افسوس ناک بات یہ ہے کہ 78 سالوں میں ہم عوام کے پیسے سے ایسا نظام نہیں بنا سکے جس میں لوگوں کو پورا انصاف مل سکے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہ غیر قانونی اور عارضی حربے معاشرے میں بے چینی کا سبب بنتے ہیں، جس سے ہر ایک اسلحہ اٹھا کر مرنے مارنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔‘