لاہور: چھ ڈاکوؤں کے پولیس مقابلے کی فائل بند مگر سوالات موجود

پولیس کی جانب سے اس واقعے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی گئی جس میں مارے گئے مبینہ ڈاکوؤں کو ڈاکٹر عباد احمد کے گھر جانے کے لیے گلی سے گزرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

لاہور پولیس کے مطابق 17 نومبر کو چھ مبینہ ڈاکو اقبال ٹاؤن میں واقع ایک گھر میں داخل ہوئے اور اہل خانہ کو گن پوائنٹ پر لوٹا (لاہور پولیس)

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 18 نومبر کو اقبال ٹاون کے علاقے میں ایک مکان میں مبینہ ڈکیتی کے لیے گھسنے والے چھ ڈاکوؤں کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے واقعے کی فائل تو باضابطہ طور پر بند کر دی گئی ہے لیکن کئی سوالات اب بھی موجود ہیں۔

لاہور پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ڈکیتی کی واردات ناکام بنائی۔ مارے گئے چھ ڈاکو جرائم پیشہ ریکارڈ یافتہ تھے جن کی لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ ان کی تدفین بھی ہو چکی ہے۔ تین ڈاکو زندہ گرفتار کر کے مارنے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔ پولیس نے قانونی کارروائی کے بعد فائل بھی بند کر دی ہے۔‘

پولیس کے مطابق پنجاب کے سب سے بڑے شہر میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف مختلف کارروائیوں کے دوران گذشتہ ایک ہفتے میں تین پولیس مقابلے ہوچکے ہیں۔  

لاہور کے کرائم رپورٹر نعمان شیخ کے بقول ’پولیس آئے روز جرائم پیشہ افراد سے پولیس مقابلوں کی تفصیلات جاری کرتی ہے۔ جن میں کئی بار پولیس اہلکار یا راہگیروں کے زخمی یا جان سے جانے کی اطلاعات بھی ملتی ہیں۔‘

’مگر اقبال ٹاون پولیس مقابلے میں کئی سوالات موجود ہیں۔ گنجان آباد علاقے میں چھ ڈاکو مکان میں گھستے ہیں۔ پولیس حرکت میں بھی آتی ہے لیکن خود پولیس، وہاں موجود اہل خانہ یا کسی بھی شہری کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ڈاکوؤں کو پولیس نے کس طرح آسانی سے مار دیا؟ پولیس کے مطابق تمام ڈاکو مسلح تھے اور انہوں نے فائر بھی کیے لیکن گولی نے کسی کو چھوا بھی نہیں؟ 45 منٹ فائرنگ کا تبادلہ ہوا لیکن مکان کے اندر دیواروں پر چند گولیوں کے نشان ہی موجود تھے۔‘

پولیس کی جانب سے اس واقعے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی گئی جس میں مارے گئے مبینہ ڈاکوؤں کو ڈاکٹر عباد احمد کے گھر جانے کے لیے گلی سے گزرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق مارے گئے تمام ڈاکوؤں کا تعلق بورے والا اور میاں چنوں سے تھا۔

اس واقعہ کی ایف آئی آر بھی متاثرہ شہری کی بجائے ایس ایچ او تھانہ اقبال تاون کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں ڈاکوؤں کی موجودگی میں پولیس نے یا تو غیر معمولی صلاحیت دکھائی ہے کہ یرغمالیوں یا خود کو بچاتے ہوئے صرف ڈاکو کو مارا۔ اس سے انہیں لگتا ہے کہ ڈاکو ناتجربہ کار تھے کہ ایک گولی بھی نشانے پر نہیں لگی۔ لیکن پھر پولیس بیان کے مطابق وہ پیشہ ور تھے اور ان کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔

ایس ایچ او تھانہ اقبال ٹاون جاوید حسنین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’پولیس ہیلپ لائن سے وائرلیس سے اطلاع موصول ہوئی کہ کالج بلاک اقبال ٹاون کے ایک مکان میں ڈاکو گھس گئے ہیں لہذا میں نفری سمیت سب سے پہلے موقع پر پہنچا۔ سب سے پہلے گیٹ پر نفری لگائی اور گلی میں شہریوں کی آمد ورفت بند کی گئی۔ اس کے بعد ہم نے اندر موجود ڈاکوؤں کو خبردار کیا کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کردیں انہیں گھیر لیا گیا ہے۔‘

جاوید کے بقول، ’ہم نے گیٹ کے اندر جانے کی کوشش کی تو ایک ڈاکو نے پولیس پر فائر کردیا جو پولیس کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو کر اندر چلا گیا۔ اس کا پیچھا کرنے پر دیواروں کی ڈھال میں ہم اندر پہنچے تو دو ڈاکوؤں نے اہل خانہ کو ٹی وی لاونج میں یرغمال بنا رکھا تھا۔‘

ایس ایچ او کے مطابق ’ان دونوں نے پولیس کو دیکھ کر فائر کیا لیکن معجزاتی طور پر پولیس اہلکار محفوظ رہے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے یہ دونوں ڈاکو بھی زخمی ہوکر زمین پر گر گئے اور دم توڑ گئے۔ اسی دوران ڈاکٹر عباد نے انہیں بتایا کہ اوپر کے پورشن میں بھی ڈاکو موجود ہیں۔ ساتھ والے کمرے میں موجود ایک ڈاکو کے فائر کی آواز آئی تو پولیس نے اس طرف بھی جوابی فائرنگ کی وہ بھی زخمی ہوکر گرا اور دم توڑ گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب ہم اوپر گئے تو وہاں مووجود دو ڈاکوؤں کو خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا کہا لیکن انہوں نے بھی فائر کھول دیا۔ پولیس دیوار کی ڈھال ہونے پر بچ گئے لیکن پولیس کی جوابی فائرنگ سے وہ دونوں ڈاکو بھی مارے گئے۔‘

اس واقعہ کی کوریج کرنے والے کرائم رپورٹر نعمان شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’پولیس نے کوریج کے لیے موقع پر موجود ہم صحافیوں کو بتایا کہ چھ ڈاکو مکان کے اندر موجود تھے جنہیں مار دیا گیا اور اہل خانہ کو بچا لیا گیا ہے۔ ہم سب حیران تھے کہ پولیس کے مطابق 45 منٹ کراس فائرنگ ہوئی۔ لیکن کسی یرغمالی یا پولیس اہلکار کو خراش تک نہیں آئی۔ سی آئی اے پولیس ٹیم بھی اس آپریشن میں موجود تھی۔ ہم نے پولیس افسران سے سوالات بھی کیے کہ کس طرح ممکن ہے کہ اہل خانہ یرغمال ہونے کے باوجود محفوظ رہے، فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور کسی پولیس اہلکار کو نقصان نہیں پہنچا؟‘

نعمان کے بقول واقعہ کے کچھ دیر بعد جب وہ پولیس کے ساتھ مکان کے اندر گئے تو دیواروں پر پانچ، چھ گولیوں کے نشان تھے۔ چھ ڈاکو مختلف جگہ مرے پڑے تھے ان کے ہاتھوں میں پستول بھی موجود تھے۔ ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی جس میں ڈاکو اس گلی میں رنگ سازوں کے بھیس میں آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جائے وقوعہ دیکھنے کے بعد اس واقعہ سے متعلق سوالات اپنی جگہ موجود ہیں کہ جو پولیس کہہ رہی ہے سب اسی طرح نہیں ہوسکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا پولیس نے تین ڈاکو زندہ پکڑ کر مارے؟

اس واقعہ سے متعلق معلومات پر بعض صحافیوں کو مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ تین ڈاکو زندہ پکڑے گئے تھے انہیں پولیس نے گرفتار کرنے کی بجائے وہیں مار ڈالا۔

اس بارے میں جاننے کے لیے متعلقہ افسران ایس پی اقبال ٹاون ارتضی کمیل، ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور انوش مسعود سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس بارے میں جواب دینے سے گریز کیا ہے۔

تاہم لاہور پولیس کے ترجمان آغا احتشام حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے اقبال ٹاون ڈکیتی کے دوران ڈاکو پولیس کی جوابی فائرنگ سے ہی مارے گئے تھے۔ یہ افواہیں ہیں اور مکمل جھوٹ ہے کہ تین ڈاکو زندہ پکڑے گئے تھے۔ ان ڈاکوؤں کی لاشیں بھی قانونی کارروائی کے بعد شناخت ہونے پر ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ ان کی تدفین بھی ہوچکی ہے اور پولیس نے ضروری قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اس کیس کی فائل بھی بند کر دی ہے۔‘

پولیس کی جانب سے مارے گئے ان چھ ڈاکوؤں سے متعلق جاری تفصیلات کے مطابق علی رضا میاں چنوں کا رہائشی تھا۔ محمد عمران، چاند عبدالمجید، علی رضا، وسیم چھیما اور محمد وسیم ضلع وہاڑی کے رہائشی تھے۔

پولیس ترجمان کے مطابق یہ تمام جرائم کے ریکارڈ یافتہ تھے۔ تاہم صبح کے وقت کا واردات کے لیے انتخاب بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اکثر جرائم پیشہ افراد تاریکی کے اوقات کو ترجعی دیتے ہیں۔  

اس سے پہلے اقبال ٹاون میں ہی ڈکیتی کی ایک اور بڑی واردات ہوئی تھی لیکن ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

رواں سال چار اگست کو لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں ہی ڈاکو شہری کے مکان سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کی نقدی اور طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہوگئےتھے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق نرگس بلاک اقبال ٹاؤن میں ڈاکو شہری خالد کے گھر داخل ہوئے اور اس کی اہلیہ کو تشدد کا نشانہ بنا کر یرغمال بنالیا تھا اور گھر سے ایک کروڑ روپے سے زائد کی نقدی اور زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔

پولیس مقابلے

پنجاب میں پولیس مقابلے ایک طویل عرصے سے معمول ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران 612 افراد کے ان مقابلوں کے دوران مارے گئے ہیں جبکہ اس دوران 57 پولیس اہلکار بھی جان سے گئے ہیں۔

مرنے ہونے والوں میں 611 مرد اور ایک خاتون شامل ہے۔ صوبے میں اس عرصے کے دوران پولیس مقابلوں کے 544 مقدمات درج ہوئے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف مقامات پر لاہور میں تین پولیس مقابلے ہوچکے ہیں۔

پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ سول لائن اور ڈاکوؤں کے درمیان چار دن پہلے فائرنگ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ملزم رضی شاہ کی نشاندہی پر پولیس اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے گئی تو اس کے دیگر ڈاکو ساتھیوں کی فائرنگ سے پولیس حراست میں موجود رضی شاہ مارا گیا جبکہ پولیس اہلکار معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔

اسی طرح دو روز پہلے پولیس دو مبینہ ڈاکو عمران عرف چھوٹا اور لطیف عرف طیفا کو دوران حراست نشاندہی پر ان کے ساتھی کو پکڑنے گئی تو ان کے ساتھیوں کے فائرنگ سے یہ دونوں ڈاکو مارے گئے۔ فائرنگ کرنے والے فرار ہوگئے جبکہ پولیس اہلکار معمجزاتی طور پر محفوظ رہے۔

ایس پی صدر ڈویژن لاہور سدرہ خان کے مطابق پیر کو جوہر ٹاون میں تین موٹر سائیکل سوار ڈاکو ایک شہری سے موبائل فون اور نقدی چھین کر فرار ہو رہے تھے۔ ناکے پر انہیں روکا گیا مگر انہوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے تعاقب کیا تو دو ملزمان اپنے ہی ساتھی کی فائرنگ سے زخمی ہوگئے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ پولیس اہلکار معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔

سابق آئی جی پنجاب چوہدری یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کے ریکارڈ یافتہ ملزموں کو گرفتاری کے دوران یا گرفتار کرنے کے بعد پولیس مقابلوں میں مارنے کا معاملہ ہمیشہ سے قابل بحث رہا ہے۔۔۔۔مگر اس صورت میں اداراجاتی کارروئی اور عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، کئی بار تحقیقاتی کمیشن بھی بنتے ہیں۔ جس طرح ساہیوال واقعہ میں پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس معاملہ میں حتمی طور پر کچھ طے نہیں ہوسکتا کیونکہ سنگین جرائم میں ملوث خطرناک ملزمان بھی پولیس افسران اور اہلکاروں کو مارنے میں دریغ نہیں کرتے، اس لیے پولیس کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت پالیسی اپنانا پڑتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان