کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن اعلان کے بعد کیوں نہیں ہوسکا؟

نگران سندھ کابینہ نے 14 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کا صفائیہ کرنے کے لیے بڑا آپریشن کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دریائے سندھ پر کچے کا علاقہ (امر گرڑو/ فائل)

نگران سندھ کابینہ کا دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف اعلان کردہ آپریشن کئی دن گزرنے کے باوجود شروع نہ ہوسکا تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ علاقے میں پانی کے باعث آپریشن میں تاخیر ہو رہی ہے۔ 

نگران سندھ کابینہ نے 14 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کا صفائیہ کرنے کے لیے بڑا آپریشن کرنے اور اسلحہ سمگل کرنے والے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کی منظوری دی۔ اجلاس کے دوران انٹیلی جنس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقے میں مجرموں کے استعمال میں سائبر اور ڈیجیٹل سروس منقطع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 

نگران کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ یہ آپریشن سندھ پولیس اور رینجرز مل کر کریں گے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان فوج کی مدد بھی لی جائے گی۔ 

کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے اعلان کے بعد سندھ رینجرز کی جانب سے ایک ایئرل فوٹیج جاری کی گئی جس میں بڑی تعداد میں رینجرز کی موبائیل گاڑیوں کو سڑک پر دیکھا گیا۔

ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں تاخیر سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سکھر عرفان سموں کے مطابق آپریشن کی تیاریوں کے علاوہ دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں سیلابی صورت حال کے باعث آپریشن میں تاخیر ہو رہی ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان سموں نے بتایا : ’دریائے سندھ میں تاحال سیلابی صورت حال ہے اور کچے کا بڑا علاقہ زیر آب ہے۔ اس لیے کچے میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں نے خود منگل کو کشمور کے کچے کا دورہ کیا ہے۔ پولیس کچے میں جانے کے لیے پگنڈیاں بنا رہی ہے۔ مگر اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘

ان سے پوچھا گیا آپریشن کے اعلان کو پانچ روز سے زائد عرصہ گزرنے اور آپریشن کے متعلق میڈیا کی مسلسل رپورٹنگ کے بعد کیا کچے کے ڈاکو کہیں اورمنتقل نہیں ہوجائیں گے؟

اس سوال کے جواب میں عرفان سموں نے کہا کہ سیلابی صورت حال اور کچے کے زیر آب آنے کے بعد پولیس نہیں جاسکتی تو ڈاکو کچے سے کیسے باہر جائیں گے۔ 

عرفان سموں کے مطابق: ’آپریشن جلد شروع ہوگا اور یہ ایک کامیاب آپریشن ہوگا۔‘

اس سلسلے میں سکھر کے ایک سینیئر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بڑی تعداد میں رینجرز دستے شمالی سندھ میں پہنچ گئے ہیں، مگر رینجرز تاحال کچے کے علاقے میں داخل نہیں ہوئی ہے۔

پولیس افسر کے مطابق رینجرز کے کچھ دستے ضلع کشمور کے درانی مہر کچے میں واقع پولیس سٹیشن میں موجود ہیں۔ 

’پولیس آپریشن کی قیادت کرے گی‘

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) لاڑکانہ جاوید جسکانی  کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن کو لیڈ کرے گی جب کہ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس کی مدد کریں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید جسکانی نے کہا: ’یہ آپریشن تمام اقسام کے جرائم بشمول اغوا برائے تاوان، قتل سمیت ہر قسم جرائم میں ملوث مجرموں کے خلاف ہوگا۔ آپریشن کے لیے ضلعی سطح پر تمام فورسز کی مشترکہ ٹاسک فورس جوڑی جا رہی ہیں۔ 

’ٹاسک فورس میں پولیس لیڈ کرے گی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس کی مدد کریں گے۔ یہ آپریشن دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع سکھر، گھوٹکی، شکارپور اور کشمور اضلاع میں ایک ہی وقت شروع کیا جائے گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ آپریشن کئی ماہ تک چل سکتا ہے۔ اس لیے مختلف اقسام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ رینجرز اور دیگر فورسز کی رہائش کا انتظام بھی کیا جارہا ہے۔ تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد ہی آپریشن شروع کیا جائے گا۔ ابھی آپریشن کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔‘

انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ رفعت مختار نے سندھ کے کچے میں ڈاکوؤں کی موجودگی، اغوا برائے تاوان، مغویوں اور کچے میں پولیس کی کارکردگی پر ایک تفصیلی رپورٹ نگران سندھ کابینہ کو پیش کی ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق شمالی سندھ کے چار اضلاع کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے کچے کے علاقے میں محفوظ  اور ناقابل رسائی ٹھکانوں میں موجود ڈاکو بڑی خندقوں اور گڑھوں میں  چھپے ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے ملٹری گریڈ ہتھیار ہیں جو پولیس کی بکتربند یا اے پی سی کے خلاف انتہائی موثر ہیں جبکہ مون سون اور خریف کے موسم میں دریائے سندھ کا بہاؤ نچلے اور درمیانے درجے کے سیلاب میں بہتا ہے۔ 

پولیس رپورٹ کے مطابق کچے کے علاقے میں 238 گاؤں ہیں جن کی آبادی چار لاکھ ہے۔ سندھ پولیس نے کچے میں آٹھ تھانے اور 20 چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ چاروں اضلاع میں دریائے سندھ کے حفاظتی بند کے ساتھ 390 پولیس چوکیاں قائم کرنے کا منصوبہ ہے اور پولیس کو جدید ترین ہتھیاروں اور آلات سے لیس کیا جائے گا۔ 

کچے کے ڈاکوؤں کو گذشتہ کئی سالوں سے رپورٹ کرنے والے سندھی زبان کے نجی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز گھوٹکی کے صحافی اللہ ورایو بوزدار کے مطابق آپریشن میں تاخیر سے خدشہ ہے کہ ڈاکو کچے سے نکل کر کہیں اور منتقل ہوجائیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اللہ ورایو بوزدار نے کہا: ’آپریشن میں تاخیر سے امکان ہے کہ ڈاکوں کچے سے باہر موجود اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے جائیں۔ 1992 میں پاکستان آرمی نے کچے میں ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران متعدد ڈاکو جان سے چلے گئے تھے۔ 

’اس آپریشن کے بعد کچے سے بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کرکے شمالی سندھ کے بڑی شہروں کا رخ کیا تھا۔‘

اللہ ورایو بوزدار کے مطابق کچے میں بہت بڑی تعداد میں آبادیاں ہیں۔ ان آبادیوں میں خشک، جاگیرانی، چاچڑ، گھُنیا، تیغانی، سندرانی سمیت مختلف برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔

’ان برادریوں میں موجود ڈاکوؤں کو ڈھونڈنا، ان کی نشاندہی کرنا اور کارروائی کرنا ایک کٹھن کام ہے۔ ‘

دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر موجود حفاظتی بندوں پر محیط کچے کے علاقے میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور سے ڈاکو موجود ہیں۔ ماضی میں یہ ڈاکو سندھ اور پنجاب میں ڈکیتی، اغوا برائے تاوان سمیت مختلف جرائم بڑے پیمانے پر کرتے رہے ہیں۔ 

ان ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے گذشتہ چاردہائیوں کے دوران پولیس اور حتیٰ کہ پاکستان فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے گئے۔ ان آپریشنز میں ڈاکوؤں کے گروہوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود تاحال ڈاکوؤں کا کچے سے مکمل خاتمہ نہ ہو سکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان