جعلی پولیس مقابلے پر عمر قید کی سزا سن کر چار پولیس افسر فرار

ملتان کی مقامی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں دو افراد کو دوران حراست قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں ملوث چار پولیس افسران کو عمر قید کی سزا سنائی تو عدالت سے نکلتے ہی ملزمان پولیس کی تحویل سے فرار ہوگئے۔

21 دسمبر، 2019 کو ملتان سینٹرل جیل کے باہر موجود پولیس ( اے ایف پی)

صوبہ پنجاب میں ملتان کی ایک مقامی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں دو افراد کو دوران حراست قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر چار پولیس افسران کو عمر قید کی سزا سنائی جوعدالت سے نکلتے ہی پولیس کی تحویل سے فرار ہو گئے۔

فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج محمد ایاز نے سنایا۔ ملتان پولیس کا کہنا ہے کہ ’وہ ضمانت پر تھے، پولیس کی حراست میں نہیں تھے، فیصلہ سنتے ہیں نکل گئے مگر انہیں گرفتار کر کے عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔ چاروں ملزمان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔‘

تاہم مقتولین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ’پولیس عدالت کے باہر موجود تھی لیکن جان بوجھ کر ملزم پولیس اہلکاروں کو فرار ہونے دیا گیا۔‘

استغاثہ کے وکیل آصف علی چوہدری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دو سال پہلے پیش آنے والے واقعے میں عدالت کے روبرو شہادتیں اور گواہان پیش کیے گئے، ملزم پولیس نے گرفتار بھی کیے مگر وہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔

’ہم نے عدالت میں کیس ثابت کیا اور جعلی پولیس مقابلے میں ماورائے عدالت دو بے گناہوں کو قتل کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔‘

واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟

استغاثہ کے مطابق مئی 2020 کے دوران تھانہ بستی ملوک میں تعینات انسپکٹر ابرار گجر، سب انسپکٹر محمد مختیار، اے ایس آئی محمود اقبال اور اے ایس آئی محمد ظفر نے دو افراد عمران رضا اور غلام شبیر کو ڈکیتی کے مقدمے میں گرفتار کیا اور دوران حراست انہیں بستی ملوک کے علاقے میں ریکوری کے لیے لے گئے۔

استغاثہ نے مزید کہا کہ اس دوران ان کے اہل خانہ سے 10 لاکھ کا مطالبہ کیا گیا کہ پیسے دیں ورنہ انہیں مار دیں گے۔ بعد ازاں انہیں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا اور انسپکٹر ابرار گجر جو ٹیم لیڈر تھے ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

مقدمے میں ان پولیس افسران نے درج کیا کہ ’پولیس ملزمان کو ریکوری کے لیے لے گئی اسی دوران ان کے ساتھی وہاں آئے اور فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ قتل ہوگئے۔‘

مقتول غلام شبیر کی بیوی کوثر مائی اور عمران رضا کے بھائی عون رضا نے سیشن عدالت ملتان میں مقدمہ دائر کردیا جس پر دو سال تک سماعت جاری رہی۔

عدالتی کارروائی کے دوران ملزم پولیس افسران نے ضمانتیں کرا لیں۔ مدعی مقدمہ عون رضا کے مطابق اس دوران پولیس کی جانب سے تعاون کی بجائے اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے ان پر ’دباؤ ڈالا جاتا رہا‘ مگر انہوں نے عدالتی کارروائی جاری رکھنے کے لیے مقدمہ کی پیروی جاری رکھی اور اب دوسال بعد عدالت نے انہیں سزا سنائی ہے۔

سزا یافتہ پولیس افسران فرار کیسے ہوگئے؟

 ایڈووکیٹ آصف چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمر قید کی سزا پانے والے افسران عدالت میں موجود تھے۔ فیصلہ سنانے کے بعد چاروں ملزمان گرفتار کر لیے گئے اور باہر نکلتے ہی فرار ہوگئے جو کہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پولیس کو عدالتی حکم پر تعمیل کے لیے انہیں فوری گرفتار کر کے جیل میں بند کرنا چاہیے تھا۔‘

آصف چوہدری نے کہا کہ ’جب پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کو فرار کرایا تو ہم نے دوبارہ فاضل جج کو اطلاع دی۔ انہوں نے آر پی او ملتان اور ڈی پی او رحیم یار خان کو حکم دیا کہ مفرور پولیس افسران کو گرفتار کر کے عدالت پیش کیا جائے تاکہ سزا پر عمل درآمد ہوسکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق وہ جب تک گرفتاری نہیں دیں گے سزا کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کر سکتے۔‘

کیس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پولیس نے جب عمران رضا اور غلام شبیر کو گرفتار کیا تو ہم نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ میں رٹ دائر کی۔ عدالت کے حکم پر پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں مدعیوں کو موقف شامل کرنے کا حکم دیا گیا مگر پولیس نے تعاون نہ کیا تو استغاثہ دائر کیا گیا۔‘

دوسری جانب ترجمان ملتان پولیس محمد فیاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کو عدالت سے قانون کے مطابق سزا ملتی ہے۔ ان چاروں افسران کو بھی عدالت نے قانون کے مطابق سزا سنائی۔ تاہم یہ تاثر غلط ہے کہ پولیس نے اپنے ساتھیوں کو فرار کرانے میں مدد کی کیونکہ وہ ضمانت پر تھے اور عدالت سے نکل کر چلے گئے۔ اب بھی عدالت کے حکم پر تعمیل کے لیے ان کو گرفتار کیا جائے گا اور عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’قانون سے بالاتر کوئی بھی نہیں چاہے پولیس افسر یا اہلکار ہی کیوں نہیں، جو بھی خلاف قانون اقدام کرے گا اس کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ یہ عدالتی کارروائی ہے ان کے خلاف فیصلہ کے مطابق محکمانہ کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔ اگر اپیل کے بعد بھی ان کا جرم برقرار رہتا ہے تو پھر انہیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔‘

کیس ثابت کیسے ہوا؟

آصف چوہدری کے بقول ’مقدمے میں پولیس کی جانب سے بہت جعلسازی سامنے آئی۔ جائے وقوعہ سے 90 خول گولیوں کے ملے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ثابت ہو گیا کہ انہیں بہت قریب سے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا جبکہ کسی اور کی جانب سے فائرنگ کے شواہد موجود نہیں تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انہیں ریکوری کے لیے جانے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے مقدمہ درج کیا گیا اور روزنامچے میں ان کا اندراج ہی نہیں تھا۔‘

’اس کے علاوہ آئی جی پنجاب کی ہیلپ لائن پر بھی ورثا کی جانب سے گرفتاری کی اطلاع کا ریکارڈ موجود تھا، ملزموں کی جانب سے وقوعہ کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی تصدیقی شہادت یا گواہی پیش نہیں کی جاسکی۔‘

انہوں نے کہاکہ ’دونوں مقتول نہ رشتہ دار تھے نہ ہی ایک جگہ کے رہنے والے تھے ایک کا تعلق دنیا پور دوسرا علی پور کا رہاشی تھا ان کے خلاف ڈکیتی کے مقدمات ضرور تھے لیکن کسی میں بھی سزا یافتہ نہیں تھے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان