طورخم حادثے میں مرنے والا شخص افغان شہری نہیں: پولیس

ضلع خیبر کے پولیس آفسر محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس ٹرک کی ٹکر سے معمر شخص حادثے کا شکار  ہوئے اس کے ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا ہے

افغان فوجی ایک ٹرک کے سامنے کھڑے پہرہ دے رہے ہیں جو 3 اگست 2021 کو پاکستان اور افغانستان کی طورخم سرحد عبور کرنے کا منتظر ہے (تصویر: اے ایف ہی فائل)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں پاکستان اور افغانستان کی طورخم سرحد پر ٹرک کے نیچے آنے والے شخص کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ افغان شہری نہیں بلکہ ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی  کے والد تھے۔

پولیس حکام نے ہفتے کو سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو جعلی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ طورخم بارڈر پر کسٹم مینیجمنٹ کے سامنے پیش آیا ہے اور عینی شاہدین کے مطابق ایک معمر شخص کی چلتی ٹرالی کے ٹائر کے نیچے آکر موت واقع ہوئی ہے۔

ضلع خیبر کے پولیس افسر محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس ٹرک کی ٹکر سے معمر شخص حادثے کا شکار  ہوئے اس کے ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس مقدمے کی کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 174 کی تحت تفتیش کی جا رہی ہے۔

یہ دفعہ کسی بھی غیر طبعی موت کی تفتیش کے حوالے سے ہے جس میں پولیس حکام اس بات کی تفتیش کرتے ہیں کہ  کسی شخص کی غیر طبعی موت کیسے واقع ہوئی ہے۔

عمران نے بتایا کہ ’اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ یہ شخص مقامی صحافی کے والد ہیں اور صحافی کے ساتھ میری بات بھی ہوگئی ہے۔ پولیس مقامی صحافی اور ان کے لواحقین کے ساتھ اس درد میں برابر کی شریک ہے اور اللہ ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سوشل میڈیا پر صبح سے یہی چل رہا تھا کہ یہ ایک افغان شہری تھا اور گذشتہ چھ دنوں سے طورخم بارڈر پر افغانستان جانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ان کے پاس دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے نہیں چھوڑا جا رہا تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ان ہی معلومات کی تصدیق کے لیے مختلف حکام سے رابطے کیے اور حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی۔

کافی تگ و دو کے بعد پولیس حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ یہ شخص افغان شہری نہیں بلکہ ان کا تعلق ضلع خیبر کے تحصیل خوگا خیل سے تھا۔

’خبر کی تصدیق کریں پھر پھیلائیں‘

ضلعی پولیس آفسر محمد عمران نے بتایا کہ پولیس کو آئے دن اس طرح کی جعلی خبروں کا سامنا رہتا ہے جو سوشل میڈیا صارفین بغیر تصدیق کے چلاتے ہیں جیسے اس واقعے میں ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے بھی سوشل میڈیا پر مختلف مواد دیکھ کر باقاعدہ تفتیش شروع کی تھی اور اب پتہ چلا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر جعلی تھی اور اس شخص کا تعلق افغانستان سے نہیں بلکہ پاکستان سے تھا اور مقامی شخص تھا۔‘

عمران نے بتایا کہ عوام میں اس بات کی آگاہی کی ضرورت ہے کہ کسی بھی واقعے سے پہلے کم ازکم وہ متعلقہ شخص یا پولیس سٹیشن سے اس بات کی تصدیق کرائیں تاکہ عوام میں بے چینی نہ پھیلے کیوں کہ جعلی خبروں سے کسی کا نقصان بھی ہو سکتا ہے اور ویسے بھی جعلی خبر چلانا اخلاقی اور قانونی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان