افغان پی او آر کارڈ ہولڈرز آج سے غیرقانونی، ملک بدری شروع: پاکستان

وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق جن افغان شہریوں کے پاس درست سفری دستاویزات نہیں ہیں، ان پر پاکستان کے امیگریشن قوانین کے تحت 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا اور ملک بدر کرنے کے بعد انہیں بلیک لسٹ بھی کیا جائے گا۔

8 نومبر، 2023 کو چمن میں افغان پناہ گزین پاکستان-افغانستان سرحد عبور کرنے سے پہلے اپنے سامان کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق یکم ستمبر 2025 سے پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر مقیم تصور کیا جائے گا، اور ملک بھر میں ان کی واپسی کا عمل باضابطہ طور پر شروع کر دیا گیا ہے۔

پی او آر (Proof of Registration) کارڈ وہ دستاویز ہے جو افغان مہاجرین کو پاکستان میں قانونی طور پر قیام کی اجازت دیتا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے اس سے قبل 30 جون کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، جسے بعد ازاں دو ماہ کی توسیع دے کر 31 اگست تک بڑھایا گیا۔ اب یہ مدت ختم ہو چکی ہے اور آج سے یہ افراد غیر قانونی تصور کیے جائیں گے۔

پاکستان میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کی تعداد تقریباً 13 لاکھ ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے اب تک تقریباً 10 لاکھ افغان مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔

31 اگست کو رضاکارانہ واپسی کا آخری دن قرار دیا گیا تھا، جبکہ یکم ستمبر سے ایف آئی اے کی زیر نگرانی نامزد بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر واپسی کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ فارن نیشنل سکیورٹی ڈیش بورڈ واپسی کے اس عمل کی نگرانی کرے گا۔

وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق جن افغان شہریوں کے پاس درست سفری دستاویزات نہیں ہیں، ان پر پاکستان کے امیگریشن قوانین کے تحت 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا اور ملک بدر کرنے کے بعد انہیں بلیک لسٹ بھی کیا جائے گا۔

پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افراد کو اب خیموں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پیر کو دوپہر 12 بجے کے بعد نئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے گا کہ کتنے افغان مہاجرین نے رضاکارانہ واپسی اختیار کی

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان مہاجرین کو حاجی کیمپس، ہری پور، مردان، مالاکنڈ اور پنجاب سے آنے والے افغان باشندوں کو جلو زئی کیمپس منتقل کیا گیا تھا۔

ہری پور میں اسسٹنٹ کمشنر غازی، خولہ طارق نے اتوار کو افغان کیمپ جموں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے افغان شہریوں کو وطن واپسی کے عمل سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک افغانستان لوٹنے کی بھی ہدایت کی۔

اس حوالے سے وزارت سیفران نے سارا ڈیٹا صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کو فراہم کر دیا ہے۔ سرحدی ٹرمینلز پر رجسٹریشن ختم کرنے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں جبکہ بائیو میٹرک لازمی قرار دے دی گئی۔

 وزارت داخلہ نے افغان شہریوں کی واپسی کا ایکشن پلان پہلے ہی صوبوں کو دے دیا ہے۔ جبکہ وزارت داخلہ کے مطابق 31 اگست کے بعد نادرا افغانستان واپس جانے والوں کی رجسٹریشن ختم کر دے گا۔

بین الاقوامی ردعمل

افغان باشندوں کو وطن واپس بھجوانے کے معاملے پر یو این ایچ سی آر نے کہا کہ ’افغانوں کو اس طرح زبردستی واپس بھیجنا پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

یو این ایچ سی آر حکومت پاکستان سے زبردستی ملک بدری بند کرنے اور افغانوں کی واپسی کو رضاکارانہ، تدریجی اور باوقار بنانے کے لیے ایک انسان دوست طرز عمل اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے‘۔

اس وقت کتنے افغان پناہ گزین پاکستان میں ہیں؟

پاکستان میں چار قسم کے افغان پناہ گزین رہائش پذیر تھے، ایک وہ  جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں ان کی بڑی تعداد کو پہلے ہی بےدخل کیا جا چکا ہے۔ دوسرے اے سی سی کارڈ ہولڈر ہیں، ان کی تعداد نو لاکھ ہے۔ وہ بھی پاکستان سے جا چکے ہیں۔ پی او آر یعنی وہ افغان جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن ہے ان کی تعداد 14 لاکھ ہے۔

ای سی سی اور غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن 31 مارچ تھی۔ جبکہ ابتدائی طور پر نادرا نے پی او آر رکھنے والوں کے لیے رضاکارانہ واپسی کی تاریخ 30 جون طے کی تھی۔

چوتھی وہ قسم ہے جو افغان شہری امریکہ اور یورپ جانے کے لیے ویزے کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد یہ لوگ پاکستان آئے تھے، اور متعلقہ سفارت خانوں نے ان کے عارضی قیام کے لیے حکومت پاکستان سے بات کر رکھی ہے۔

رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان مہاجرین

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بتایا کہ واپس جانے والے افغان مہاجرین میں سے 63 فیصد نے پاکستان میں گرفتاری کے خوف، 39 فیصد نے گھریلو اخراجات پورے نہ ہونے، 37 فیصد نے گھروں کے کرایے ادا کرنے میں مشکلات اور 31 فیصد نے بے روزگاری کو اپنی واپسی کی بنیادی وجہ بتایا۔

84 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنے قریبی عزیزوں کی موجودگی اور دوبارہ ان کے ساتھ رہنے کی خواہش بھی ان کی واپسی کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ 72 فیصد نے افغانستان میں ممکنہ طور پر انسانی امداد کی فراہمی کو اپنی واپسی کی بنیادی وجوہات میں شمار کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان