اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سوڈان کے دور دراز علاقے مرا ماؤنٹینز کے ایک گاؤں میں لینڈ سلائیڈنگ سے کم از کم 370 افراد جان سے گئے۔
سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نائب رابطہ کار اینٹوئن جیرارڈ کا کہنا ہے کہ اموات کی صحیح تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہونے والا علاقہ بہت دور دراز اور دشوار گزار ہے۔
بی بی سی کے مطابق انہوں نے کہا: ’ہمارے پاس ہیلی کاپٹر نہیں ہیں، ہر چیز گاڑیوں کے ذریعے انتہائی خراب راستوں پر لے جائی جا رہی ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے اور یہ برسات کا موسم ہے، بعض اوقات ہمیں وادی پار کرنے کے لیے گھنٹوں، شاید ایک یا دو دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’امدادی سامان سے بھرے ٹرک لانا ایک چیلنج ہو گا۔‘
اس علاقے پر قابض باغی گروپ، سوڈان لبریشن موومنٹ/آرمی نے ایک بیان میں کہا: ’ابتدائی معلومات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ تمام گاؤں کے رہائشی جان سے چلے گئے ہیں، جن کی تعداد کا اندازہ ایک ہزار سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔‘
باغی گروپ نے کہا کہ یہ آفت اتوار کو وسطی دارفور کے مرہ پہاڑوں میں واقع تراسین گاؤں پر اس وقت نازل ہوئی جب اگست کے آخر میں کئی روز تک شدید بارشیں ہوتی رہیں۔
گروپ نے کہا کہ گاؤں مکمل طور پر زمین بوس ہو گیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ متاثرین کی لاشیں نکالنے میں مدد کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دارفور کے گورنر منی مناوی نے لینڈ سلائیڈنگ کو ’انسانی المیہ‘ قرار دیا۔
اے ایف پی کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ہم بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری مداخلت کریں اور اس نازک وقت میں مدد فراہم کریں، کیونکہ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ ہمارے لوگ تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘
الجزیرہ کے مطابق، وسطی دارفور کے دور دراز مرہ پہاڑ، جہاں سڑک کے ذریعے رسائی ممکن نہیں، بہت سے لوگوں کے لیے پناہ گاہ کا کام کرتے ہیں، جن میں تنازع کے باعث بے گھر ہونے والے بھی شامل ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے گاؤں گنجان آباد ہیں۔
یہ آفت ایسے وقت میں آئی ہے جب ملک ایک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، جو اپریل 2023 میں اس وقت شروع ہوئی جب سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جھڑپیں خرطوم اور پورے ملک میں پھیل گئیں۔ وسیع پیمانے پر جاری تنازع اور سخت پابندیوں کے باعث دارفور کے بیشتر علاقے، بشمول مرہ پہاڑ، اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی پہنچ سے تقریباً باہر ہیں۔
بی بی سی کے مطابق، سوڈان میں جاری خانہ جنگی میں اموات کے اعداد و شمار میں خاصاً فرق پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایک امریکی اہلکار نے اموات کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار تک بتائی تھی جبکہ لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے تھے۔
اسی دوران، سوڈان لبریشن موومنٹ/آرمی کے دھڑے، جو لینڈ سلائیڈ سے متاثرہ علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں، نے سوڈانی فوج کی ریپڈ سپورٹ فورسز کے خلاف لڑائی میں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
© The Independent