چین کل بدھ کو اس وقت اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ منعقد کرے گا جب صدر شی جن پنگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی اور جیو پولیٹیکل پالیسیوں کے توڑ کے لیے مشرق میں خود کو سب سے بڑے رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
صدر شی کے ساتھ روسی صدر ولادی میر پوتن، شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان بھی شریک ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب یہ چاروں رہنما طاقت کے مظاہرے کے لیے اکٹھے ہوں گے جب کہ بیجنگ اپنی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔
مغربی ماہرین اس اجلاس کو ’ہلچل پیدا کرنے والا اتحاد‘ (Axis of Upheaval) قرار دے رہے ہیں جس میں زیادہ تر 25 غیر نیٹو ممالک کے رہنما شامل ہیں۔ امکان ہے کہ یہ اجلاس روس اور شمالی کوریا کے درمیان جون 2024 میں ہونے والے دفاعی معاہدے کو مزید مضبوط کرے گا۔
شمالی کوریا کے رہنما منگل کو اپنی خصوصی ٹرین پر چین کی سرحد عبور کر کے بیجنگ پہنچے۔ اس دوران صدر شی اور صدر پوتن نے عوامی ہال میں منگولیا کے رہنما سے ملاقات کی جس میں گیس پائپ لائن کے بڑے منصوبے پر بات ہونے کی توقع تھی۔
روسی صدر نے اس موقع پر اپنے ’عزیز دوست‘ شی جن پنگ کا گرم جوشی سے استقبال کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’تاریخ کی بلند ترین سطح‘ پر پہنچ گئے ہیں۔
چین کی یہ بڑی فوجی پریڈ تین ستمبر کو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ہو گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پریڈ گذشتہ سال ٹرمپ کی 79ویں سالگرہ پر ہونے والی فوجی پریڈ کو کہیں پیچھے چھوڑ دے گی۔ یہ پریڈ دراصل ٹرمپ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو طاقت کا پیغام دینے کے لیے ہے جو غالباً امریکی صدر کو مزید ناراض کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متوقع پریڈ کیسی ہو گی؟
چینی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی تین ستمبر کو جاپان کے دوسری جنگ عظیم کے ہتھیار ڈالنے کی 80 ویں سالگرہ کے موقعے پر زمینی اور بحری ہتھیاروں کے جدید ترین نظاموں کی تیاری کر رہی ہے۔
یہ پریڈ ممکنہ طور پر 2015 میں ہونے والی 70ویں سالگرہ کی پریڈ سے بھی بڑی ہو گی جس میں 12 ہزار سے زائد فوجی اور روس، بیلاروس، منگولیا، کمبوڈیا اور دیگر ممالک کی فوجی دستے شریک ہوئے تھے۔
صدر شی، جو مسلح افواج کے سربراہ بھی ہیں، اس موقعے پر تقریر کریں گے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ نئے ہتھیاروں، جیسے ہائپرسانک میزائل اور جدید الیکٹرانک نظام، کا ذکر کریں گے۔ وہ ریڈ فلیگ لیموزین کی چھت سے فوجیوں کو سلام پیش کریں گے۔ اس گاڑی میں مائیکروفون لگے ہوئے ہیں جس سے وہ وقتاً فوقتاً ’کامریڈز‘ کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
یہ پریڈ معروف تیانان مین سکوائر سے گزرے گی اور مختلف ممالک کے سربراہان اس کا مشاہدہ کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اندرون ملک اس موقعے کو اپنی ترقی اور کمیونسٹ پارٹی کی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
چین دوسری جنگ عظیم کا ایک اہم محاذ تھا لیکن اکثر تاریخ میں زیادہ زور یورپ کی لڑائیوں اور امریکہ کی بحرالکاہل میں سمندری جنگوں پر دیا جاتا ہے اور چین کا کردار نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جارج ٹاؤن اور جارج واشنگٹن یونیورسٹیوں میں پڑھانے والی جدید چینی تاریخ کی ماہر ایملی میٹسن کہتی ہیں کہ یہ پہلو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ وہ خود کو چینی عوام کی قیادت کا حقدار ثابت کرنے کے لیے اسے اپنی تاریخ کا مرکزی حصہ بتاتی ہے۔
فوجی حکام نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پریڈ میں درجنوں لڑاکا طیارے، بمبار کے ساتھ ساتھ زمینی عسکری سازوسامان بھی شامل ہیں، جن میں سے کچھ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔
ڈرون گرانے والے آلات سے لیس ٹرکوں، نئے ٹینکوں اور چین کے ایئرکرافٹ کیریئرز کی حفاظت کے لیے تیار کردہ وارننگ طیاروں تک، فوجی اتاشیوں اور سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ چین پریڈ میں ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی ایک بڑی تعداد پیش کرے گا۔
چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی مستقل فوج ہے جس میں 20 لاکھ سے زیادہ اہلکار شامل ہیں اور اس کا میزائل، ایئرکرافٹ کیریئرز اور لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہتھیاروں کا ذخیرہ تیزی سے جدید ہو رہا ہے۔
تجزیہ کار سونگ ژونگ پنگ نے اے ایف پی کو بتایا: ’چین ایٹمی ہتھیاروں کی نئی جنریشن پیش کرے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایٹمی ہتھیار اور دیگر فوجی ساز و سامان چین اور امریکہ کے درمیان فوجی طاقت کے توازن کو برابر کرنے میں مدد دیں گے۔‘
کون شریک ہو رہا ہے؟
تقریباً 26 رہنما، جن میں شمالی کوریا کے گوشہ نشین رہنما کم جونگ اآن بھی شامل ہیں، بدھ کو صدر شی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
کم جونگ اُن، جو منگل کی صبح اپنی خصوصی ٹرین کے ذریعے چین میں داخل ہوئے، کے لیے یہ ان کا پہلا بڑا کثیرالجہتی اجتماع ہو گا اور 66 برس بعد پہلی بار کوئی شمالی کوریائی رہنما چینی فوجی پریڈ میں شریک ہو گا۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار چائنا انیلیسس میں چینی سیاست کے ماہر نیل ٹامس نے کہا: ’ولادی میر پوتن، (ایران کے صدر) مسعود پزشکیان اور کم جونگ اُن کی موجودگی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی غیر جمہوری طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس سال کی پریڈ میں وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے رہنماؤں کی تعداد 2015 کی پریڈ کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو خطے میں بیجنگ کی سفارت کاری کی پیش رفت کو ظاہر کرتی ہے۔
سلوواکیا کے وزیرِاعظم رابرٹ فیکو، جو واحد نیٹو رکن ہیں اور سربیا کے الیگزینڈر وُچچ، جو دونوں یوکرین میں جنگ کے باعث روس پر لگائی گئی پابندیوں کے ناقد ہیں، یہاں مغرب کی نمائندگی کریں گے۔
رواں ہفتے ہی صدر شی نے تیانجن میں ایک علاقائی سلامتی فورم کے دوران ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کو ایک زیادہ مساوی اور کثیر قطبی دنیا کے حق میں آواز بلند کرنے اور دوسری جنگ عظیم کی ’درست تاریخی تشریح‘ کو فروغ دینے کی اپیل کی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے گذشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ یہ پریڈ بھی ایک ’یادداشت کی جنگ‘ کا حصہ ہے جس میں چین اور روس ایک ایسی متبادل تاریخ پیش کر رہے ہیں جو ان کے خیال میں مغرب کی اس کہانی کے برعکس ہے، جو فسطائی قوتوں سے لڑنے میں ان کے کردار کو کم کر کے دکھاتی ہے۔
بیجنگ میں ہونے والی اس تقرئب کے متوقع دیگر مہمانوں میں پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلینگ اور جمہوریہ کانگو کے صدر ڈینس ساسو نیزو شامل ہیں۔
فوجی ساز و سامان کی نمائش
تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کی گئی 70 منٹ کی یہ پریڈ عوام کو چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کی ایک نایاب جھلک دے گی اور یہ پیغام واشنگٹن کو بھی بخوبی ملے گا۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ پریڈ میں دکھایا جانے والا تمام فوجی ساز و سامان ملک میں تیار کیا گیا ہے اور اس وقت استعمال بھی ہو رہا ہے، جبکہ توجہ کا بڑا حصہ بحری طاقت پر مرکوز ہے کیونکہ چین تائیوان پر اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے۔
فوجی مبصر اور چینی فوج کے سابق انسٹرکٹر سونگ ژونگ پنگ نے بات تائیوان آبنائے اور بحیرہ جنوبی چین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے اے ایف پی کو بتایا: ’چین کو لازمی طور پر طاقتور اینٹی شپ اور اینٹی ایئرکرافٹ کیریئر صلاحیتیں تیار کرنا ہوں گی تاکہ امریکہ کو چین کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بننے سے روکا جا سکے۔‘
منگل کو تائیوان کے صدر لائی چنگ تے نے خبردار کیا کہ یہ جارحانہ رویہ بالآخر ناکام ہو گا اور اس حوالے سے انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے اسباق اور 1958 میں چینی افواج کے خلاف تائیوان کی مبینہ فتوحات کی طرف اشارہ کیا۔
بحری طاقت
پریڈ کی مشقوں کے دوران لی گئی افشا ہونے والی تصاویر کے مطابق امکان ہے کہ چین کم از کم دو اقسام کی اضافی بڑی بغیر عملے والی زیرِ آب گاڑیوں (XLUUVs) کی نمائش کرے گا۔
بحریہ کی خبروں کے مطابق یہ جہاز، جن کی لمبائی تقریباً 60 فٹ بتائی جا رہی ہے، بڑے ٹرانسپورٹ وہیکلز پر شہر بھر میں لے جائے جاتے ہوئے دیکھے گئے۔ ان کے ٹارپیڈو کی شکل والی باڈی اور پمپ جیٹ پروپلشن سسٹم سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زیرِ آب گاڑیاں خفیہ رہنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔
تصاویر میں دکھایا گیا کہ ان سمندری ڈرونز میں سے ایک پر ‘AJX002’ کا نشان لگا ہوا تھا جبکہ دوسری قسم کو صرف ڈھانپ کر ہی فوٹوگراف کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ریہرسل کے دوران چھ ڈرونز دیکھے گئے۔ ان میں سے چار کی ساخت AJX002 ماڈل سے ملتی جلتی تھی جبکہ دو کچھ بڑے دکھائی دیے۔ AJX002 ماڈل میں ہل پر چار لفٹنگ لگز (lifting lugs) موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کرین کی مدد سے اٹھائے جاتے ہیں۔
’نیول نیوز‘ نامی دفاعی جریدے کے مطابق چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا XLUUV (غیر انسانی زیرِآب گاڑیاں) پروگرام چلا رہا ہے جس میں کم از کم پانچ مختلف اقسام پہلے ہی پانی میں آزمائی جا رہی ہیں۔
ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق، پیپلز لبریشن آرمی اپنی ٹائپ 99A مین بیٹل ٹینک بھی پیش کرے گی جسے پرانی سیکنڈ جنریشن کی ٹائپ 88 ٹینک کو بدلنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ٹائپ 99 سیریز، جسے ZTZ-99 بھی کہا جاتا ہے، کی تیاری 1989 میں شروع ہوئی اور یہ سوویت دور کے T-72 شاسی کے ڈیزائن پر مبنی ہے۔
تقریباً 55 ٹن وزنی ٹائپ 99A ٹینک، ٹائپ 99 سیریز کا سب سے جدید ماڈل ہے اور 2011 سے چینی فوج کے پاس موجود ہے۔ اس میں جدید 105 ملی میٹر کی مین گن، بڑا برج ، چار طرفہ ریڈار، اور مربوط انجن سسٹم نصب ہے۔
یہ مرکزی جنگی ٹینک تین افراد کے عملے کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کی لمبائی 36 فٹ تک ہے۔
ایس سی ایم پی کی رپورٹ کے مطابق ٹائپ 99 اے مین بیٹل ٹینک جدید ترین ٹارگٹنگ سسٹم سے لیس ہے جو گنر کو ایک ہدف پر حملہ کرنے کے قابل بناتا ہے جبکہ کمانڈر آزادانہ طور پر اگلے ہدف کو ٹریک کر سکتا ہے۔
اس کے اپ گریڈ شدہ فائر کنٹرول سسٹم میں تیسرے درجے کا تھرمل امیجر، موسمیاتی سینسر اور ایک بیلسٹک کمپیوٹر شامل ہے، جو پانچ کلومیٹر تک کے فاصلے پر اہداف پر درست حملے کو ممکن بناتا ہے۔
جوہری ہتھیار لے جانے والے بیلسٹک میزائل
انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائل سسٹم اور ہائپرسونک اینٹی شپ میزائل ان جدید ہتھیاروں میں شامل ہیں جو کمیونسٹ حکومت پریڈ میں پیش کرے گی۔
چینی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں وائی جے سیریز کے ایک نئے اینٹی شپ میزائل کو پریڈ کی مشقوں کے لیے شہر میں لے جاتے ہوئے دکھایا گیا۔
نیا وائی جے-15 میزائل وائی جے-17، وائی جے-19 اور وائی جے-20 ہائپرسونک میزائلوں کے ساتھ دیکھا گیا۔ وائی جے میزائل، جو ’ینگ جی‘ یا ’ایگل اٹیک‘ کا مخفف ہے، جہازوں یا طیاروں سے داغے جا سکتے ہیں اور بڑے بحری جہازوں کو شدید نقصان پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
یہ مشاہدات ظاہر کرتے ہیں کہ چین ہائپر سونک ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، یہ وہ شعبہ ہے جو اپنی صلاحیت کی وجہ سے روایتی دفاعی نظاموں کو چکما دینے کے سبب دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصاویر میں ایک نیا ٹرانسپورٹر۔ایریکٹر۔لانچر (TEL) گاڑی بھی نظر آئی، جو ایک بڑے، ترپال سے ڈھکے میزائل کنستر کو لے جا رہی تھی، جو ممکنہ طور پر ایک نیا بیلسٹک میزائل سسٹم ہو سکتا ہے۔
اینٹی شپ میزائل اور ہائپر سونک صلاحیتوں والے ہتھیار خاص طور پر توجہ کا مرکز رہیں گے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مستقبل کے کسی بھی علاقائی تنازع میں چین کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ڈرون
ایک بغیر پائلٹ کا جنگی فضائیہ کا جہاز (UCAV)، جسے کولیبریٹو کومبیٹ ایئرکرافٹ یا لایل ونگ مین ڈرون سمجھا جا رہا ہے، بیجنگ کی سڑکوں پر ریہرسل کے دوران دیکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ UCAV، جو ایک ٹرک کے پچھلے حصے میں نظر آیا، یا تو چینی FH-97 سے مشابہت رکھتا ہے یا امریکی YFQ-42A سے۔
چینی فوجی ہوا بازی کے ماہر آندریاس روپریشٹ نے کہا کہ صرف مشقوں کا پیمانہ ہی توقعات سے بڑھ کر ہے۔
انہوں نے خبر رساں ادارے ڈیفنس بلاگ کو بتایا: ’اگر ہم صرف فضائی قوت کے حوالے سے بات کریں، تو چین جو کچھ دکھانے والا ہے، اس کی تیاریوں کا پیمانہ بھی سب کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔‘
© The Independent