پاکستانی حکومت نے چین کے ساتھ مشترکہ سکیورٹی فورس کو مسترد کر دیا

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے یہ بیان پیر کو عرب نیوز کو ایسے وقت میں دیا جب حالیہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں بیجنگ کی طرف سے اس معاملے پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

پاکستان نے یہ امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ ایک مشترکہ سکیورٹی فورس قائم کرے گا تاکہ پاکستان میں موجود ہزاروں چینی کارکنوں کی حفاظت کی جا سکے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے یہ بیان پیر کو عرب نیوز کو ایسے وقت میں دیا جب حالیہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں بیجنگ کی طرف سے اس معاملے پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

گذشتہ ہفتے جب وزیر اعظم شہباز شریف شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے لیے چین گئے تھے تو اس موقع پر صدر شی جن پنگ نے ان پر زور دیا کہ وہ ان چینی شہریوں کے تحفظ کو بہتر بنائیں جنہیں بارہا عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان میں متعدد چینی شہری بیجنگ کی مالی اعانت سے بننے والے اربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) صدر شی جن پنگ کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبوں کی ایک نمایاں مثال ہے لیکن پاکستان میں چینی کارکنوں کو لاحق سکیورٹی خطرات قریبی اتحادیوں کے درمیان تناؤ کی وجہ بن گئے ہیں۔

ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے مشترکہ سکیورٹی فورس کے قیام یا اسلام آباد کی طرف سے بیجنگ کو اپنے سکیورٹی اہلکار لانے کی اجازت دینے کے امکان کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یقیناً تعاون ہونا چاہیے، انٹیلی جنس کا تبادلہ ہونا چاہیے، خیالات کا تبادلہ ہونا چاہیے، یہ سب وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن جہاں تک زمینی سکیورٹی [چینی افواج کی موجودگی] کا تعلق ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور پاکستانی مسلح افواج اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح لیس ہیں اور وہ پہلے سے ہی اس پر قابو پا رہی ہیں۔‘

پاکستان نے چینی منصوبوں کی حفاظت کے لیے دسیوں ہزار فوجی، نیم فوجی دستے اور پولیس اہلکار تعینات کیے ہیں، جن میں بجلی گھر اور گوادر کی بحیرہ عرب کی بندرگاہ شامل ہیں۔

منصوبے خاص طور پر بلوچستان کے جنوب مغربی صوبے میں متاثر ہوئے ہیں، جہاں گوادر واقع ہے۔ بڑے واقعات میں گذشتہ سال کراچی ایئرپورٹ کے باہر ہونے والا ایک خودکش بم دھماکہ شامل ہے جس میں دو چینی انجینیئرز کی امدوات ہوئیں۔

اس کے علاوہ ایک اور حملہ مارچ 2024 میں بھی ہوا تھا جس میں پانچ چینی انجینیئرز اور ان کا پاکستانی ڈرائیور اس وقت جان سے گئے تھے جب ان کے قافلے پر ایک خودکش بمبار نے شمال مغربی پاکستان میں ایک ڈیم منصوبے کے قریب حملہ کیا تھا۔

2021 میں داسو میں بس پر کیے جانے والے بم حملے میں 13 افراد جان سے گئے جن میں نو چینی شہری شامل تھے۔

پاکستانی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے بیجنگ کے خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ جہاں تک سکیورٹی صورت حال کا تعلق ہے، ہاں، یہ ایک تشویش ہے۔

’اور وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریروں میں اس پر بات کی کہ ہم ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جہاں سکیورٹی کا مسئلہ موجود ہے، لیکن حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا