حالیہ سیلاب سے شدید متاثرہ ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالا میں بستی چاچڑاں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار شفیق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیلاب سے پہلے ایمرجنسی میں انہیں اپنی بیوی کو ملتان ہسپتال میں داخل کرنا پڑا لیکن جب وہ واپس آئے تو ان کا سب کچھ پانی میں ڈوب چکا تھا۔
’گردوں کے مرض میں مبتلا بیوی کو نشتر ہسپتال ملتان ایمرجنسی لے گیا، ڈاکٹروں کی ہدایت پر داخل کروا دیا۔ اطلاع ملی کہ جلالپور پیروالا میں سیلاب آ گیا ہے، واپس گیا تو ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ سات ایکڑ دھان سمیت سب کچھ پانی میں ڈوب چکا تھا۔ میرے تین بچے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ امدادی کیمپ میں منتقل کیے جا چکے تھے۔‘
پنجاب میں حالیہ سیلاب نے تین دن سے ملتان، جلالپور پیروالا کے بعد علی پور میں تباہی مچا رکھی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 45 سو سے زائد موضع جات سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں جس سے بیس لاکھ سے زائد فصلیں اور باغات بھی پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
سیلاب سے دھان، مکئی، گنے، باغات اور سبزیوں کی فصل کو شدید نقصان ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں میں گھریلو استعمال کا اناج بھی پانی کی نذر ہو چکا ہے جس سے سیلاب زدگان کی بحالی ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
بقول شفیق، ’ہماری بستی دریائے چناب کے کنارے جلالپور شہر سے کچھ دور واقع ہے جہاں سب کاشتکار یا محنت کش رہتے ہیں۔ ہمیں منگل کے روز انتظامیہ نے گھر خالی کرنے کا کہا ہم نے اپنا سامان وغیرہ جمع کیا۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ بند پر مٹی ڈالی جا رہی ہے شاید اس طرف پانی نہ آئے۔ لہٰذا ہم نے انتظار کیا کیونکہ اپنا گھر بار، مال مویشی، تیار فصلیں چھوڑنا کوئی آسان نہیں ہے۔‘
’ہم اپنے گھر موجود رہے گزشتہ روز میری بیوی جو گردوں کے مرض میں مبتلا ہے اسے زیادہ تکلیف ہوئی تو جلالپور شہر لے گیا۔ ڈاکٹر نے کہا طبیعت زیادہ خراب ہے اسے نشتر لے جاؤ جب نشتر گیا تو انہوں نے علاج کے لیے داخل کر لیا۔ شام کے وقت میرے بھائی نے فون کر کے بتایا کہ بستی کے قریب بند ٹوٹنے سے سیلاب آ گیا ہے۔ ہم سب ریسکیو کی کشتی میں امدادی کیمپ منتقل ہو رہے ہیں۔ میں جب پریشانی میں واپس گیا تو اپنے گھر جا سکا نہ فصلوں پر کیونکہ چار سے پانچ فٹ تک ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ لہٰذا میں بھی امدادی کیمپ میں چلا گیا۔‘
شفیق نے کہا کہ ’ہماری سات ایکڑ دھان تھی اور میرے دو بھائیوں کی اپنی فصلیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک ایکڑ پر 70 ہزار روپے خرچ ہو چکا تھا۔ دھان کا بیج، پانی اور زمین تیار کرنے میں 55 ہزار جبکہ ڈی اے پی کھاد کی فی ایکڑ ایک بوری لگائی جو پندرہ ہزار کی بوری ہے۔ کھاد بھی ادھار پر لی ہوئی تھی۔ گھر میں سال کے لیے جو گندم، چاول وغیرہ رکھے تھے اور سامان سب پانی کی نذر ہو گیا۔ اب پانی نکل بھی جائے تو فصل ہری نہیں ہو سکتی کیونکہ اوپر سے پانی پھر گیا ہے جو ابھی تک کھڑا ہے اس کی سطح کم نہیں ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بدھ کو جلالپور پیروالا میں اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کو چھوٹے جانور کے عوض 50 ہزار، بڑے جانور کے عوض پانچ لاکھ، دو کمروں کے لیے پانچ جبکہ چار کمروں کے نقصان پر دس لاکھ روپے حکومت فراہم کرے گی۔
ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری نے آج جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ابھی سیلابی صورتحال برقرار ہے پوری حکومتی مشینری سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کا کام کر رہی ہے۔ اب تک سیلاب سے 40 لاکھ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ 22 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ اب بھی جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کو سیلاب سے نکالنے کا آپریشن جاری ہے۔ انتظامیہ نے 17 لاکھ جانوروں کو سیلاب سے بچایا ہے۔‘
عظمیٰ کے بقول، ’پنجاب حکومت نے سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی سربراہی میں 14 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو ہر طرح کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کو پاکستان میں کلائمیٹ اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد باٹھ کے بقول ’سیلاب سے 35 سے 40 لاکھ تیار فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ بڑی تعداد میں جانور، ہزاروں گاؤں اور بستیاں پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے زرعی ایمرجنسی کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کے تحت حکومت فوری ریلیف کا کام شروع کرے تاکہ کسانوں کو کچھ حوصلہ ملے۔‘
’ابھی تو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس وقت بھی سیلابی پانی جلالپور پیروالا، دوسری طرف علی پور میں تباہی مچا رہا ہے جبکہ اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں پہلے ہی سب کچھ بہا کر لے گیا۔ اس صورتحال میں وزیر اعظم کی جانب سے زرعی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘
خالد کے بقول، ’ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کے تحت کاشتکاروں کی مدد کس طرح کی جائے گی۔ کیونکہ ایک تو گندم کھانے کے لیے نہیں رہی۔ دوسرا فصلیں تباہ ہونے سے دوبارہ کاشت کرنے کے لیے بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی فوری ضرورت ہو گی۔ ڈیزل سے زمینیں تیار کرنے کے لئے اضافی ضرورت ہو گی۔ یہ سب حکومت کو فوری شروع کر دینا چاہیے جہاں سے سیلاب کم ہو رہا ہے ان علاقوں کے کاشتکاروں کی بحالی ناگزیر ہے۔‘