خیبرپختونخوا میں جھڑپیں: 35 عسکریت پسند مارے گئے، 12 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے بیان میں انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر ’ان گھناؤنے جرائم میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔‘

پاکستانی فوج کے اہلکار 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع شمالی وزیرستان کے ایک قصبے غلام خان میں سرحدی ٹرمینل پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی فوج نے ہفتے کو بتایا ہے کہ گذشتہ تین روز کے دوران خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں دو علیحدہ علیحدہ جھڑپوں میں انڈین حمایت یافتہ 35 عسکریت پسند مارے گئے جبکہ 12 سکیورٹی اہلکار بھی جان سے چلے گئے۔

حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، جہاں فوج کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردی کی عفریت‘ کے ملک سے مکمل خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ یہ واقعات 10 سے 13 ستمبر کے دوران ضلع باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں پیش آئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع باجوڑ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد انڈین حمایت یافتہ 22 عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا۔

افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع پاکستانی ضلع باجوڑ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے خبروں میں ہے، جہاں ماموند کے علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا جا رہا بلکہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

اسی طرح آئی ایس پی آر کے مطابق جنوبی وزیرستان میں ہونے والی ایک اور جھڑپ میں سکیورٹی فورسز نے مزید 13 عسکریت پسندوں کو مار دیا، تاہم اس دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں 12 سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فوج نے بتایا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں سے ’اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا، جو ان علاقوں میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے تھے۔‘

جنوبی وزیرستان میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ یہ واقعہ آسمان منزہ کے مقام پر پیش آیا، جو ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ 

جبکہ مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ فوجی قافلہ ہفتے کی صبح تقریباً چار بجے جنوبی وزیرستان کے ایک قصبے سے گزر رہا تھا کہ ’مسلح افراد نے دونوں اطراف سے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 12 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے اور چار زخمی ہو گئے۔‘

علاقے میں تعینات ایک سکیورٹی افسر نے اموات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور قافلے کے ہتھیار بھی لے گئے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری سوشل میڈیا پر قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر ’ان گھناؤنے جرائم میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔‘

پاکستان کے خلاف عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’پاکستان کو عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں انڈین سرپرستی میں کسی بھی عسکریت پسند کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہیں۔ ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک سے انڈین حمایت یافتہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر جوانوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘

یہ حملہ گذشتہ کئی ماہ میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے سب سے مہلک حملوں میں سے ایک ہے، جہاں ٹی ٹی پی ایک وقت میں بڑے پیمانے پر قابض رہی تھی، تاہم 2014 میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد اسے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔

اسلام آباد نے بارہا کہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین استعمال کرنے والے ان شدت پسندوں کو نکالنے میں ناکام رہا ہے، جو پاکستان پر حملے کرتے ہیں جبکہ کابل کے حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں مکانات اور عمارتوں پر ٹی ٹی پی کے نام سے دیواروں پر تحریریں بھی دیکھی گئی ہیں، جس سے مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ کہیں طالبان کا پرانا دور واپس نہ آ جائے جب امریکی ’وار آن ٹیرر‘ کے دوران سرحد پار سے لڑائی پاکستان میں پھیل گئی تھی۔

ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور ان کے حملوں میں حالیہ عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق یکم جنوری سے اب تک ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تقریباً 460 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔

اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق گذشتہ سال پاکستان میں تقریباً ایک دہائی کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا، جس کی تعداد 1600 سے زائد تھی، جن میں سے قریباً نصف فوجی اور پولیس اہلکار تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان