لندن اور دہلی کے درمیان تاریخی آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر بدھ کو انڈیا پہنچے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان برسوں پر محیط شدید گفت و شنید کے بعد عمل شکل میں سامنے آ سکا تھا۔
برطانیہ اور انڈیا نے جولائی میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران ایک آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں ٹیکسٹائل سے لے کر وہسکی اور کاروں تک کی اشیا پر ٹیرف میں کمی اور کاروبار کے لیے مزید مارکیٹ تک رسائی کی اجازت دینے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔
یہ سٹارمر کا انڈیا کا پہلا سرکاری دورہ ہے، جس سے انہیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ ملے گا۔
برطانوی وزیر اعظم کے ہمراہ 125 رکنی وفد بھی ہے، جس میں برٹش ایئرویز کے چیف ایگزیکٹیو شان ڈوئل سمیت اعلیٰ کاروباری رہنما شامل ہیں۔
سٹارمر جمعرات کو مودی سے ملنے والے ہیں اور ان کے ساتھ ممبئی میں ایک فنٹیک کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
سٹارمر نے ایک بیان میں کہا کہ ’بھارت 2028 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے گا اور ان کے ساتھ تجارت تیز اور سستی ہونے والی ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے منتظر مواقع بے مثال ہیں۔‘
انڈیا اور اس کے سابق نوآبادیاتی حکمران دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتیں ہیں، جن کی دو طرفہ تجارت تقریباً 54.8 ارب ڈالر ہے اور سرمایہ کاری دونوں ممالک میں چھ لاکھ سے زیادہ ملازمتوں کی حمایت کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ دورہ ’انڈیا اور برطانیہ کے مشترکہ وژن کی توثیق کرنے کا ایک قیمتی موقع فراہم کرے گا تاکہ مستقبل کے حوالے سے شراکت داری قائم کی جا سکے۔‘
نئی ڈیل کے تحت انڈیا وہسکی، کاسمیٹکس اور طبی آلات جیسی برطانوی اشیا کی درآمد پر محصولات میں کمی کرے گا، جبکہ برطانیہ انڈیا سے منجمد جھینگوں سمیت کپڑے، جوتے اور کھانے کی مصنوعات پر ڈیوٹی کم کرے گا۔
تاہم سٹارمر نے صنعت کے دباؤ کے باوجود انڈین پیشہ ور افراد کے لیے ویزا تک رسائی کو بڑھانے سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے ممبئی جاتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’یہ منصوبے کا حصہ نہیں ہے۔
’اب ہم یہاں آزاد تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کے لیے آئے ہیں جو ہم پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔ ہمیں اسے نافذ کرنا ہے۔‘
حقوق گروپوں نے سٹارمر پر زور دیا ہے کہ وہ سکاٹش سکھ بلاگر جگتار سنگھ جوہل کا معاملہ اٹھائیں، جو 2017 سے انڈیا میں دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کو قتل کرنے کی مبینہ سازش پر نظر بند ہیں۔
انہیں مجرم قرار نہیں دیا گیا ہے اور ام کے خلاف نو الزامات میں سے ایک کو مارچ میں خارج کر دیا گیا تھا۔