اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دے دی

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے جمعے کو کہا کہ حکومت نے حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے ’فریم ورک کی منظوری‘ دے دی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے جمعے کو کہا کہ حکومت نے حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے ’فریم ورک کی منظوری‘ دے دی ہے، جبکہ فریقین کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہو جانے کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہا۔ 

اسرائیل اور حماس نے مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں جمعرات کو غزہ کی جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا تھا، جس میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔

مصر میں یہ معاہدہ غزہ کے لیے گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے بعد ہوا ہے، جنہوں نے کہا تھا کہ وہ اتوار کو مشرق وسطیٰ کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دوسری جانب مصر معاہدے کے اختتام پر جشن منانے کے لیے ایک تقریب کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

تاہم فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافیوں اور عینی شاہدین نے بتایا کہ جمعرات کی شام جنوبی اور وسطی غزہ میں مزید دھماکوں اور توپ خانے سے فائر کرنے کی آوازیں سنی گئیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کو ایک بیان میں نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ حکومت نے ’تمام زندہ اور مردہ قیدیوں کی رہائی کے فریم ورک کی منظوری دے دی ہے۔‘

نتن یاہو کو اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جب قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے کہا کہ وہ معاہدے کے خلاف ووٹ دیں گے۔ انہوں نے غزہ میں باقی 47 قیدیوں کے بدلے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے منصوبے کو ’ناقابل برداشت بھاری قیمت‘ قرار دیا۔

حماس کے سینیئر عہدیدار اسامہ حمدان نے کہا کہ فلسطینی اسلامی تحریک نے مؤخر الذکر کو مسترد کر دیا ہے۔

اسامہ حمدان نے قطر میں قائم نشریاتی ادارے العربی کو بتایا کہ ’کوئی بھی فلسطینی اسے قبول نہیں کرے گا۔ فلسطینی اتھارٹی سمیت تمام دھڑے اسے مسترد کرتے ہیں۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں حماس کے ہتھیار ڈالنے کے معاملے پر توجہ دی جائے گی۔

سینیئر امریکی حکام نے کہا کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر کی قیادت میں 200 افراد پر مشتمل فوجی ٹیم کو مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کی ’نگرانی‘ کے لیے تعینات کیا جائے گا۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ ٹیم میں مصری، قطری، ترکی اور ممکنہ طور پر اماراتی فوجی اہلکار شامل ہوں گے۔ ایک دوسرے عہدیدار نے کہا کہ ’کوئی امریکی فوجی غزہ میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘

یہ بات غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں ہو رہی تھی، جہاں حماس کے زیرانتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق کم از کم 67,194 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتبار تصور کرتا ہے۔

اعداد و شمار عام شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتے لیکن یہ بتاتے ہیں کہ مرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔

دوسری جانب غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے معاہدے کے اعلان کے بعد علاقے پر کئی حملوں کی اطلاع دی۔

اے ایف پی کے صحافیوں اور عینی شاہدین نے بتایا کہ جمعرات کی شام جنوبی اور وسطی غزہ میں مزید دھماکوں اور توپ خانے سے فائر کرنے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا