نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر کی اہلیہ کے وکیل نے پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ خاتون خود بھی مبینہ طور پر ’غائب‘ ہو گئی ہیں۔
مغوی افسر محمد عثمان کو 14 اکتوبر کو رہائشی اپارٹمنٹ کی بیسمنٹ میں پارکنگ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا۔
ان کے اغوا کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ شمس کالونی میں درج ہے۔
عثمان کی اہلیہ روزینہ عثمان نے شوہر کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست داخل کر رکھی ہے، جس کی سماعت کے دوران پٹیشنر کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی مؤکلہ کا فون بند ہے اور ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
انہوں نے کہا ’مجھے نہیں معلوم پٹیشنر کہاں ہیں، خدشہ ہے کہیں انہیں بھی نا اٹھا لیا گیا ہو۔‘
وکیل رضوان عباسی نے مزید کہا کہ مؤکلہ نے انہیں فون کے ذریعے مطلع کیا تھا کہ ان (روزینہ عثمان) پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا عثمان اہم کیسز پر کام کر رہے تھے اور انہیں جعلی نمبر پلیٹ والی سفید کرولا گاڑی میں اغوا کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محمد اعظم خان نے ڈائریکٹر این سی سی آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے پولیس کو عثمان کی بازیابی کے لیے تین دن کی مہلت دے دی۔
جج نے پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ بازیاب کروائیں ورنہ ہم بھی وہی آرڈر کرنا شروع کر دیں گے جو باقی بینچ کر رہے تھے۔‘
عدالت میں موجود اسلام آباد پولیس کے اہلکار نے مبینہ مغوی کی (پیر کی) شام تک بازیابی کی یقین دہانی کرواتے ہوئے عدالت سے سات روز کی مہلت مانگی جسے جسٹس اعظم نے مسترد کر دیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم نے سوال اٹھایا کہ ’اگر گاڑی کی نمبر پلیٹ مشکوک ہے تو وہ اسلام آباد میں کیسے چل رہی تھی؟‘
’یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ آپ کے شہر میں ناکے لگے ہیں اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی موجود ہیں۔‘
عدالت نے پٹیشنر روزینہ پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی فون کالز کا سی ڈی آر سے تفصیلات حاصل کرنے کی بھی ہدایت کی۔