تھائی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ایک لاپتہ بیلاروسی ماڈل کو اغوا کر کے تھائی لینڈ سے میانمار سمگل کیا گیا۔ تھائی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے اپنی مرضی سے گئیں تھیں۔
تھائی امیگریشن حکام کے مطابق ویرا کراؤٹسووا، جن کے بارے میں مقامی رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ جان سے جا چکی ہیں، 12 ستمبر کو بینکاک کے سوورنا بھومی ایئرپورٹ پر اتر کر تھائی لینڈ میں داخل ہوئیں اور 20 ستمبر کو تھائی فضائی کمپنی کی پرواز کے ذریعے میانمار کے شہر ینگون روانہ ہو گئیں۔
تھائی میڈیا ایم جی آر آن لائن نے رپورٹ کیا کہ بایومیٹرک تصدیق سے ثابت ہو گیا کہ یہ وہی تھیں جس سے ان اغوا کے دعووں کی تردید ہو گئی۔
یہ معاملہ اس وقت بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا جب کئی میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا کہ 26 سالہ بیلاروسی ماڈل کو اغوا کر کے میانمار لے جایا گیا اور بعد میں تاوان کے لیے بلیک میل کیا گیا۔
امیگریشن بیورو کے ترجمان پولیس میجر جنرل چرنگرون رمفادی نے کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا، اور امیگریشن ریکارڈ سے تصدیق ہوتی ہے کہ انہوں نے خودکار بارڈر کنٹرول (اے بی سی) گیٹ استعمال کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’رپورٹ ہونے والے پرتشدد واقعات اس وقت پیش آئے جب ماڈل میانمار کے لیے روانہ ہو چکی تھیں۔ تھائی پولیس کو نہیں معلوم کہ وہاں کیا ہوا کیوں کہ وہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔‘
گذشتہ ہفتے میانمار میں بیلاروس کے سفیر ولادی میر بوروویکوف نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ کراؤٹسووا سے متعلق سنسنی پھیلانے والے میڈیا کی خبروں پر یقین نہ کریں۔ انہوں نے میڈیا میں ان کے ’قتل‘ کی خبروں کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔
بیلاروس کی ٹیلی گراف ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’ہم صرف ان لوگوں کے غیراخلاقی اور غیرذمہ دارانہ رویے پر افسوس ہی کر سکتے ہیں جو جھوٹی اور بغیرتصدیق معلومات پھیلا رہے ہیں، جس سے صرف لواحقین کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
سفیر نے تصدیق کی کہ کراؤٹسووا 20 ستمبر کو بینکاک سے یانگون گئی تھیں اور کہا کہ بیلاروسی سفارت خانہ ان کا پتہ لگانے کے لیے سرکاری ذرائع استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے خاندان نے آخری بار چار اکتوبر کو ان سے بات کی تھی۔
ان کے مبینہ قتل کی خبروں کو اس وقت تقویت ملی جب روس کے اخبار کومسومولسکایا پراودا نے رپورٹ کیا کہ مبینہ طور پر میانمار حکام کی جانب سے جاری ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ان کی موت دل کے دورے سے ہوئی اور 16 اکتوبر کو اخری رسومات میں ان کی لاش جلا دی گئی۔
تاہم اس دستاویز کی صداقت کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی۔ سنسنی پھیلانے والے اخبارات کا دعویٰ ہے کہ وہ ملازمت کی تلاش میں تھائی لینڈ گئیں لیکن انہیں اغوا کر کے دھوکہ دہی میں ملوث میانمار کے ایک کال سینٹر میں جبری مشقت کے لیے فروخت کر دیا گیا۔
غیرملکی میڈیا اداروں نے، جن میں17 اکتوبر کا ڈیلی میل بھی شامل ہے، رپورٹ کیا کہ یہ ماڈل گذشتہ ماہ بینکاک اس وقت گئیں جب انہیں جزوقتی ماڈلنگ کے موقعے کا پیغام ملا اور انہوں نے وہاں ملازمت کے لیے انٹرویو دیا۔
ایک اور جریدے نے رپورٹ کیا: ’وہ ملازمت کے انٹرویو کے لیے بینکاک گئی تھیں، مگر رن وے پر کام کی بجائے انہیں میانمار لے جایا گیا اور غلام بنا دیا گیا۔‘
دا سن نے میش نامی جریدے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ’ان کے فرائض میں خوبصورت ہونا، ’آقاؤں‘ کی خدمت ور امیر لوگوں سے پیسے نکلوانا شامل تھا۔‘
اخبار نیشن تھائی لینڈ کے مطابق تھائی لینڈ کی ٹورزم اتھارٹی (ٹی اے ٹی) کراؤٹسووا کی مبینہ موت کی خبروں کے بعد عالمی ردعمل پر نظر رکھ رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی اے ٹی کی گورنر تھاپنی کیات پھائی بول نے خدشہ ظاہر کیا کہ آن لائن قیاس آرائیاں تھائی لینڈ کی سیاحت کی سکیورٹی پر بین الاقوامی اعتماد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق انہوں نے ٹی اے ٹی ماسکو آفس کو ہدایت کی کہ صورت حال کا فوری جائزہ لے، سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا سراغ لگائے اور پیش رفت پر باقاعدہ رپورٹس بھیجے۔
ادھر ادارے نے مسافروں پر زور دیا ہے کہ وہ ہوشیار رہیں۔ بیرون ملک اجنبیوں سے میل جول سے گریز کریں اور کسی بھی خطرے کا اندیشہ ہو تو فوراً مقامی حکام یا اپنے سفارت خانے سے رابطہ کریں۔
اطلاعات کے مطابق بیلاروس کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ ان کے خاندان کو مکمل سفارتی مدد فراہم کرے گی تاکہ ان کی باقیات کی وطن واپسی ممکن ہو سکے۔
میانمار کے سکیم سینٹرز، خاص طور پر تھائی سرحد کے ساتھ، 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد تیزی سے پھیل چکے ہیں۔ سخت حفاظتی انتظامات والے ’کے کے پارک‘ جیسے کمپاؤنڈز سرحد پار آن لائن فراڈ کے مراکز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار نے گذشتہ ماہ رپورٹ کیا کہ جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے زیر اثر اور مبینہ طور پر فوج کی خاموش حمایت سے، یہ کمپاؤنڈز ایشیا اور افریقہ بھر سے سمگل شدہ کارکنوں کو تشدد اور اذیت کی دھمکیوں سے کام لیتے ہوئے دھوکہ دہی پر مجبور کرتے ہیں۔
ان مراکز میں مینیجروں کے لیے پرتعیش رہائش، آن سائٹ ہسپتال، بینک اور سٹار لنک جیسی سیٹلائٹ انٹرنیٹ رسائی شامل ہے، جس سے وہ تھائی سرحدی پابندیوں کے باوجود کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ تقریباً سات ہزار متاثرین کو بچایا جا چکا ہے، مگر اندازوں کے مطابق ایک لاکھ تک افراد اب بھی پھنسے ہوئے ہیں اور سنگین حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مراکز انسانی سمگلنگ اور منظم جرائم کے بڑے بحران میں تبدیل ہو گئے ہیں جو میانمار کی جنگی معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
© The Independent