22 مئی 2020 کا دن سینکڑوں خاندانوں کے لیے اس وقت ایک سیاہ دن بن گیا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پرواز PK-8303 لاہور سے کراچی آتے ہوئے ماڈل کالونی کے رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی۔
اس سانحے میں 97 افراد جان کی بازی ہارے، جن میں 89 مسافر اور عملے کے آٹھ افراد شامل تھے۔ معجزانہ طور پر صرف دو افراد زندہ بچ سکے تھے۔
جب پی آئی اے کی اس پرواز نے لاہور سے کراچی کی طرف اڑان بھری، تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ اڑان کئی گھروں کی خوشیاں، کئی دلوں کی دھڑکنیں اور کئی کے خواب اپنے ساتھ لے جائے گی۔ اسی پرواز میں ایک چہرہ ایسا بھی تھا جو ماڈلنگ کی دنیا میں اپنی شناخت بنا چکا تھا - زارا عابد۔
ان دنوں زارا عابد پاکستان فیشن انڈسٹری میں تیزی سے اوپر جا رہی تھیں اور اسی سال انہوں نے ہم سٹائل ایوارڈز میں بہترین فی میل ماڈل کا ایوارڈ اپنے نام کیا تھا۔ ثنا سفیناز کے ساتھ کیریئر کا آغاز کرنے والی زارا نے مختصر مدت میں لگ بھگ اکثر معروف ڈیزائنرز کے ساتھ کام کیا۔
زارا، تم اب بھی یہیں ہو: والدہ
زارا کی والدہ تعظیم جمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’پانچ سال گزر چکے ہیں، مگر زارا کا نام سن کر آج بھی ایک لمحے کو دل رک سا جاتا ہے۔ اس کرب ناک دن کو یاد کر کے وہ کہتی ہیں کہ ’جمعے کا روز تھا کہ اچانک کال آتی ہے، ٹی وی لگائیں، جب ٹی وی آن کیا تو سکرین پر وہ خبر چل رہی تھی، جس نے میری دنیا اندھیر کر دی۔
’میرا دل زارا کی موت کی خبر ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ایک دن پہلے ہماری آخری بار بات ہوئی تھی۔ کہہ رہی تھی، ماما، میں آ کر آپ کو سرپرائز دوں گی۔
’وہ سرپرائز ہماری زندگی کا سب سے بڑا دکھ بن جائے گا، یہ نہیں سوچا تھا۔ یہ سانحہ ہماری زندگی کا چراغ بجھا گیا۔‘
بقول والدہ تعظیم جمال: ’ہم دیوانہ وار ہسپتالوں، ایدھی سینٹرز، مردہ خانے جا رہے تھے۔ لبوں پر صرف ایک دعا تھی کہ یا اللہ، کوئی معجزہ ہو جائے۔۔ زارا واپس آ جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ہونی کو کون انہونی کرسکتا ہے۔ اگلے دن ورثا کو اس نوجوان اداکارہ اور ماڈل کی لاش ملی۔ والدہ نے بتایا کہ ’اس کا چہرہ بالکل صحیع سلامت تھا، جیسے ابھی اٹھ کر مجھ سے لپٹ جائے گی، لیکن میں اندر سےمکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔‘
زارا کی والدہ نے ان کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ’زارا ایک بہادر اور باہمت لڑکی تھی۔ باپ کے انتقال کے بعد چھوٹی عمر میں اس نے گھر کی ساری ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ میرے لیے وہ صرف بیٹی نہیں، میرا بیٹا بھی تھی۔
’اس کا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا لیکن حالات نے ساتھ نہ دیا۔ گھریلو مجبوریاں تھیں، تو ماڈلنگ میں قدم رکھا اور پھر دن رات کی محنت سے مقام بنایا۔ زارا عابد نے شوبز کی دنیا میں کم وقت میں ہی اپنی پہچان بنا لی تھی، البتہ ابتدا میں انہیں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔‘
ہر شعبے کی طرح یہاں بھی نئے آنے والوں کو آسانی سے جگہ نہیں ملتی، لیکن وہ ڈٹی رہیں۔ ہمت نہیں ہاری اور کی محنت اور لگن نے شوبز انڈسٹری میں انہیں ایک نمایاں مقام دلایا۔
’میری بیٹی کو فراموش کر دیا گیا‘
زارا کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی زارا جیسی باصلاحیت لڑکی نے شوبز انڈسٹری کو اپنی جوانی کے قیمتی سال دیے، لیکن افسوس کہ اس کی موت کے بعد انڈسٹری نے اسے بہت جلد فراموش کر دیا۔ نہ کوئی یادگاری تقریب رکھی گئی، نہ کسی سطح پر اس کی خدمات کو سراہا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ’زارا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی جائے، جس میں اس کی جدوجہد، خواب، کامیابیاں اور قربانیاں دکھائی جائیں تاکہ آنے والی نسلیں اس باہمت لڑکی کو یاد رکھیں۔‘
زارا کی والدہ کے مطابق پی آئی اے کی وہ پرواز، 22 مئی کا دن اور عید کا موقع، ہماری زندگی میں زخم بن کر رہ گئے ہیں۔ آج بھی زارا کی آواز اور ہنسی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ میں آج بھی اسے نہیں بھلا سکی۔
کاش میں اسے روک لیتی۔۔۔ کاش یہ دن نہ آتا۔۔۔!‘
شوبز کریئر
زارا عابد نے نو سال میں شوبز انڈسٹری میں اپنا کریئر بنایا۔ رفتہ رفتہ وہ پاکستان کے معروف برانڈز اور فیشن میگزینز کا چہرا بن گئیں۔ ایوارڈز ملنے لگے، پہچان بنتی گئی اور پھر وہ لمحہ آیا، جب لگنے لگا کہ اب زارا رکنے والی نہیں۔
پھر زارا عابد نے مختصر فلم ’سکہ‘ میں اداکاری کی، جو ان کی زندگی کی پہلی اور آخری فلم ثابت ہوئی۔
یہ صرف ایک ماڈل کی موت نہیں تھی، یہ ان تمام امیدوں کا بکھر جانا تھا، جو زارا جیسے عام گھرانوں کی لڑکیاں اپنے دل میں لیے جیتی ہیں، کامیاب ہونے کی، تسلیم کیے جانے کی، کچھ بن جانے کی۔