امن کوئی خواب نہیں۔ یہ عام آدمی کی معاشی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی نے نہ صرف خطے کی سیاست کو زخم دیے ہیں بلکہ عام آدمی کی معیشت کو بھی مسلسل کمزور کیا ہے۔
اب جب دونوں ممالک کے درمیان فی الحال جنگ بندی ہو گئی ہے اور مذاکرات کا دوسرا دور 25 اکتوبر کو ترکی میں شروع ہو رہا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ شاید امن کی ہوا عام آدمی خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے بھی زندگی کی رمق واپس لے آئے۔
یہ جنگ صرف گولیوں کی نہیں، روزگار کی بھی ہے۔ امن اگر واقعی قائم ہو جائے تو اس کے ثمرات سب سے پہلے وہ مزدور محسوس کرے گا جو صبح بارڈر کی طرف خالی ہاتھ جاتا ہے اور شام کو بچوں کے لیے روٹی لے کر لوٹتا ہے۔
پاکستان بارڈر ٹریڈ کونسل کے چیئرمین اور خیبر چمبر آف کامرس کے صدرسید جواد حسین کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’ خیبرپختونخوا کے پانچ اور بلوچستان کے دو بارڈر افغانستان کے ساتھ زیادہ فعال ہیں۔ جنگ بندی کے باوجود یہ سب بارڈر تجارت کے لیے ابھی تک کھلے نہیں ہیں۔ افغان تارکین وطن بھی بارڈر پر بیٹھے ہیں۔ ’روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان سات سرحدوں پر تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ لوگ آباد ہیں اور ان میں سے تقریباً 10لاکھ لوگوں کا روزگار سرحد سے ہونے والی تجارت کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے۔
’چمن اور طورخم بارڈر سے80 فیصد تجارت ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں نہ زراعت ہے اور نہ ہی فیکٹریاں ہیں۔ صرف بارڈر کی تجارت ہی واحد روزگار ہے۔ یہاں صرف بارڈر ہی زندگی ہے۔ جب 10 لاکھ لوگوں کا روزگار بند ہوتا ہے تو ایک کروڑ آبادی متاثر ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس مسئلے کا حل طاقت یا دھمکی نہیں بلکہ جرگہ اور بات چیت ہے۔ حکومت ہمیں جرگہ کرنے کی اجازت دے تو پاک افغان مسائل جلد حل ہو سکتے ہیں۔ آج ہی میری افغانستان چمبر آف کامرس کے صدر سید کریم ہاشمی اور ارکان محمد یونس مہمند اور حاجی گل مراد سے تفصیلی بات ہوئی ہے۔ امید ہے کہ جلد تجارت کے لیے بارڈر کھلنے میں بڑی پیش رفت ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سیزن میں پاکستان کا تقریباً 80 فیصد ٹماٹر افغانستان سے آتا ہے۔ ٹماٹر500 روپے فی کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ ڈرائی فروٹ اور کوئلے کے دام بھی بڑھ رہے ہیں جس کا بوجھ عام آدمی کی جیب پر پڑ رہا ہے۔‘
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان افغانستان تجارت کا حجم دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ جس میں ایک سال کے دوران 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جنگ کے بعد تجارت بند ہے۔ تقریباً 80 کروڑ سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کا فوری نقصان ہو سکتا ہےاور اگرامن قائم نہ ہوا تو ٹرانسپورٹ، سیمنٹ، پیٹرولیم، بینکنگ اور دفاعی اخراجات بڑھنے کا نقصان ہو گا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’افغانستان کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی اشیا میں کپاس، کوئلہ، پیاز، ٹماٹر، کشمش، اور قیمتی پتھر سرفہرست ہیں اور پاکستان سے افغانستان بھجی جانے والی اشیا میں آٹا، چاول، چینی، ڈیری مصنوعات، تعمیراتی سامان، کپڑا، ٹیکسٹائل مصنوعات، مشینری، صنعتی آلات، فرنیچر، سگریٹ، جوس، مشروبات، پنکھے اور پمپ سمیت کئی اشیا شامل ہیں جن کا براہ راست اثر پاکستان کی برآمدات پر پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان تجارت بند ہونے سے کم از کم 25 صنعتیں متاثر ہوتی ہیں۔ افغانستان میں استعمال ہونے والے سیمنٹ کا 30 فیصد پاکستان سے جاتا ہے۔ تجارت رکنے سے صرف سیمنٹ سیکٹر پر 400 ملین ڈالرز کا اثر پڑ سکتا ہے اور تقریباً 50 ہزار مزدور متاثر ہو سکتے ہیں۔ جب 2021–22 میں پاکستان افغانستان سرحد چند ہفتے بند رہی تو پشاور، بنوں اور مردان کی فلور ملز کی 40 فیصد پیداوار بند ہو گئی تھی۔ ان عوامل سے بے روزگاری بڑھتی ہے۔ پاکستان میں بےروزگاری کی شرح 6.5 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ اس لیے جنگ بندی کے بعد پاکستان افغانستان تجارت بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ بے روزگاری کم ہو۔ امن اب کوئی نعرہ نہیں، ایک معاشی مجبوری ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر حاجی ایوب میرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چمن جیسے علاقوں میں ہزاروں مزدور، ڈرائیور اور چھوٹے کاروباری لوگ براہ راست پاکستان افغانستان تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’سات آٹھ سو کنٹینر افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور تقریباً تین سو کنٹینر پاکستان میں پھنسے ہیں۔ تقریباً 25 ہزار ٹن مال سڑکوں پر ہے۔ پاکستان تقریباً 250 سال سے افغانستان کو سامان برآمد کرتا آ رہا ہے۔ اس کے بغیر گزار ممکن نہیں ہے۔ ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایران نے 80 فیصد افغانستان کی منڈی پر قبضہ کر لیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر تجارت جلد بحال نہ ہوئی تو جرائم میں اضافہ ہو گا اور مزید بدامنی پھیل سکتی ہے۔ جب تجارت رکتی ہے تو صرف سرحد نہیں، پورے شہر کی معیشت ٹھہر جاتی ہے۔ تجارت کی بحالی ان لوگوں کے لیے نئی زندگی کی علامت بن سکتا ہے۔
چئیرمین پاکستان فارماسوٹیکل مینوفکچررز ایسوسی ایشن طاہر اعظم صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان، افغانستان کی ادویات مارکیٹ کا تقریباً 30 سے 35 فیصد سپلائر ہے۔ برآمدات بند ہونے سے پنجاب کی فارما کمپنیاں براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔ ہر مہینے تقریباً 15۔20 ملین ڈالر کی ادویات کی برامد رک سکتی ہے۔ افغانستان کو 186ملین ڈالرز کی ادویات قانونی راستے برآمد کرتا ہے جو پاکستان کی ادویات ایکسپورٹ کا تقریباً 40فیصد ہے۔ اس کے علاوہ سمگلنگ بھی کی جاتی رہی ہے۔ تجارت بند ہونے سے فارما سیکٹر میں بے روزگاری نہیں بڑھے گی کیوں کہ پاکستان کی فارما کمپنیاں تقریباً 4ارب ڈالرز کا کاروبار کرتی ہیں افغان برآمد ٹوٹل کاروبار کا صرف 4.5فیصدہےلیکن ڈالر ذخائر پر معمولی فرق آ سکتا ہے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے بتایا: ’جب سے افغانستان کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوئی ہیں پاکستان سٹاک ایکسچیبج میں زیادہ تر منفی رجحان ہے۔ اب عام آدمی بھی سٹاک میں سرمایہ لگا رہا ہے۔غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے اسے بھی نقصان ہو رہا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔