پاکستان افغانستان تجارتی مذاکرات کابل میں ہوں گے

پاکستانی وفد اپنے دو روزہ دورے کے دوران سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر بھی غور کرے گا۔

پاکستان اور افغان طالبان کے پرچم پاکستان افغان کی سرحد کے دونوں اطراف 18 اگست 2021 کو چمن باڈر پر لہرا رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی امور پر بات چیت کے لیے وفد دو روزہ دورے پر آج کابل روانہ ہو رہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اتوار کو بتایا کہ پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری تجارت خرم آغا کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت اور باہمی عوامی تعلقات کے پر عزم ہے۔

پاکستانی وفد اپنے دو روزہ دورے کے دوران سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر بھی غور کرے گا۔

متواتر سرحدی جھڑپوں اور مشترکہ سرحد کے ساتھ اہم کراسنگ پوائنٹس کی بندش کے درمیان دونوں پڑوسی ریاستوں کے درمیان تجارتی تعلقات نمایاں طور پر بگڑ گئے ہیں۔

رکاوٹوں نے نہ صرف سفارتی تعلقات کو کشیدہ کیا ہے بلکہ دونوں اطراف کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر تجارت پر منحصر کمیونٹیز اور صنعتوں کو متاثر کیا ہے۔

ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی ) کے چیف ایگزیکٹو افسر اور اس وفد کے رکن محمد زبیر موتی والا نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعاون کا باعث بنے گا، دونوں ممالک کو تجارت کو آسان بنانے، پابندیوں کو کم کرنے اور سرحدی مقامات پر ٹرانزٹ کو آسان بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستانی وفد میں وزارت تجارت کی جوائنٹ سیکریٹری ماریہ قاضی، ایڈیشنل سیکریٹری تجارت ڈاکٹر واجد علی خان، ڈائریکٹر جنرل ٹرانّٹ ٹریڈ اور ایڈشنل سیکریٹری داخلہ خوش حال خان بھی شامل ہوں گے۔

افغانستان کی وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد نے عرب نیوز کو تصدیق کی ہے کہ وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی افغان وفد کی قیادت کریں گے۔ تاہم انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ تجارتی شعبے کے امور کو پاکستان کی طرف سے خوامخواہ پچیدہ بنایا گیا ہے۔

یہ پیش رفت افغانستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف پاکستان کے فضائی حملے کے چند دن بعد سامنے آئی ہے، دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پہلے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔

افغانستان کی وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ کے ذریعے کاروبار میں پاکستان کے ساتھ تجارتی پیچیدگیوں کی وجہ سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم پاکستان سے تجارت و کاروبار کی راہ میں بیوروکریٹک یا انفراسٹرکچر اور سرحدی پوائنٹس پر بھیڑ ختم کرنے سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے پر گفتگو کریں گے، تجارت کے لیے کراسنگ پوائنٹس کی بندش اور دوبارہ کھولنے، کم سکیننگ کی گنجائش، تجارتی نقل و حرکت میں رکاوٹوں جیسے خراب ہونے والے سامان کی نقل و حمل پر بات کریں گے۔ جس کے نتیجے میں اکثر ہمارے تاجروں کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ننگرہار چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رکن حاجی عثمان نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے مسائل بھی ان کے درمیان تجارت کے ہموار بہاؤ میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے بیانات ہمیشہ متضاد ہوتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ صورتحال میں دو طرفہ تجارت آگے بڑھ سکتی ہے، سب سے پہلے، دونوں ممالک کو اعتماد بحال کرنے اور تجارت کو بڑھانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستانی تاجر بھی اپنے حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ اور دو طرفہ تجارت کو آسان بنائیں کیوں کہ یہ دونوں کے لیے مفید ہے۔

پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (پی اے جے سی سی آئی) کے رابطہ کار ضیاالحق سرحدی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا ہے کہ وزارت تجارت نے اکتوبر 2023 میں ایس آر او جاری کرتے ہوئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی 14 اشیا پر پابندی عائد کی تھی جو کہ ایک بڑے تناظر میں تقریباً 212 آئٹمز پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ 100 فیصد بینک گارنٹیز پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

’کارگو سامان پہلے ہی انشورنس گارنٹی کے تحت شامل تھا اور تمام سامان گذشتہ 13 سالوں سے محفوظ طریقے سے افغانستان جا رہا تھا۔‘

انہوں نے 100 فیصد بینک گارنٹی کو منسوخ کرنے اور انشورنس گارنٹی کے پرانے نظام کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

دونوں ممالک نے تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن یہ کم ہو کر 1.4 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔

گذشتہ روز باختر نیوز ایجنسی نے خبر دی تھی کہ پاکستان اور افعانستان کے درمیان طورخم سرحد کئی گھنٹے بند رہنے کے بعد کھول دی گئی ہے جسے پاکستانی حکام نے سرحدی جھڑپ کے بعد بند کر دیا تھا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے رواں ہفتے خبردار کیا تھا کہ اسلام آباد افغانستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے فراہم کردہ راہداری کو روک سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا تو کابل کو سہولت فراہم کرنا بند کر دے۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو دیے جانے والے انٹرویو میں انکا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان ہمارے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتا ہے تو ہم انہیں تجارتی راہداری کیوں دیں؟‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت