پنجاب کا اپنا سائبر کرائم ونگ بنانے پر غور: کیا یہ ممکن ہے؟

وزیر اعلیٰ سیکرٹیریٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم ونگ میں بہت سے کیسسز میں تاخیر کا سامنا ہے جس کے پیش نظر الگ سائبر کرائم ونگ تشکیل دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیرِ صدارت 28 اکتوبر 2025 کو امن و امان پر مسلسل چھٹا اجلاس ہوا (وزیر اعلیٰ پنجاب)

پنجاب حکومت نے ایف آئی اے کی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا صوبائی سائبر کرائم ونگ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ پیر کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ سیکرٹیریٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نیشنل سائبر کرائم ونگ میں بہت سے کیسسز میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے پیش نظر صوبہ اپنا سائبر کرائم ونگ تشکیل دینے پر غور کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ ونگ کس ادارے میں بنایا جائے گا یہ ابھی طے کرنا باقی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ونگ کا ٹکراؤ وفاقی قانون کے ساتھ نہ ہو یہ سب لائحہ عمل اگلے آنے والے فیز میں طے کیا جائے گا۔‘

کیا صوبے کو الگ سائبر کرائم ونگ بنانے کے لیے قانون سازی درکار ہوگی؟

پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل سید فرہاد علی شاہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پنجاب اپنا سائبر کرائم ونگ بناتا ہے تو یہ وفاق سے ٹکراؤ نہیں ہوگا کیونکہ انفورسمنٹ آف فیڈریشن کے حوالے سے ہم صوبے میں اپنا سائبر کرائم ونگ بنا سکتے ہیں، اس میں کوئی قدغن نہیں ہے۔

’البتہ اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے گی جیسے آپ کے سامنے کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس (سی این ایس) ایک فیڈریشن کا قانون ہے۔ ابھی صوبے نے اپنا پنجاب کنٹرول آف نارکوٹیکس سبسٹینس قانون بنا لیا ہے اس کے لیے فورس بھی بنا لی ہے، 18ویں ترمیم کے بعد اسی طرح پنجاب سائبر کرائم ونگ کے لیے بھی اپنا قانون بنا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس ونگ کو یا تو کسی لا انفورسمنٹ ادارے کے ساتھ جوڑنا ہو گا یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے صوبہ اپنی کوئی نئی ایجنسی بنا لے جو اس کی قانون سازی میں ہی ترتیب دیا جائے گا۔‘

کیا ایف آئی اے کی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی متنازع ہے؟

این سی سی آئی اے اس وقت تنازعے کا شکار ہوئی جب رواں برس لاہور میں ادارے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز نے معروف یوٹیوبرز سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی اور رجب بٹ کے خلاف مقدمات درج کیے اور انہیں یہ کہہ کر حراست میں لیا کہ یہ ’آن لائن جوئے‘ کو نوجوانوں میں مقبول کر رہے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز سمیت چھ افراد کو 27 اکتوبر 2025 کو حراست میں لیا ہے۔

چوہدری سرفراز کو اس سے پہلے مختلف تنازعات کے نتیجے میں ان کے عہدے سے ہٹا کر این سی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں رپورٹ کرنے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔ اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے چھ مہینے کی چھٹی کی درخواست دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیر حراست اہلکاروں کے وکیل بیریسٹر میاں علی اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان چھ اہلکاروں پر رشوت لینے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کا الزام ہے۔

بیریسٹر اشفاق نے بتایا کہ ان چھ اہلکاروں میں ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز، ان چارج زوار، سب انسپیکٹر علی رضا، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض، یاسر گجر اور مجتبیٰ کامران شامل ہیں۔

دوسری جانب گ27 اکتوبر کی شب سات بج کر 35 منٹ پر معروف یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کی اہلیہ اروب جتوئی نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل لاہور میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے نو افسران کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے جن میں یہ چھ افسران بھی شامل ہیں۔ جبکہ اسلام آباد میں این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز محمد عثمان جو کئی روز سے لاپتہ ہیں کو بھی ایف آئی میں نامزد کیا گیا ہے۔

 ایف آئی آر کے مطابق این سی سی آئی اے نے ڈکی بھائی کو گرفتار کیا تھا اور ان کے کیس کی انکوائری لاہور این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض کو سونپی گئی تھی۔

’دوران انکوائری معلوم ہوا کہ شعیب ریاض نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے رشوت کی مد میں 90 لاکھ روپے ملزم سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کے خاندان سے بذریعہ فرنٹ مین عثمان، سلمان عزیز اور ملزم کے وکیل چوہدری عثمان کے ساتھ باہم ساز باز کر کے وصول کیے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’60 لاکھ روپے شعیب ریاض نے اپنے اپنے فرنٹ میں سلمان عزیز کے ذریعے کوٹ عبدالمالک موٹر وے ٹول پلازہ ضلع شیخو پورہ درخواست دہندہ و ضیا الرحمان اور عبداللہ کی موجودگی میں اگست 2025 میں وصول کیے جبکہ باقی  30 لاکھ روپے دس، دس لاکھ روپے کی مالیت کے تین چیک کی صورت میں شعیب ریاض کے فرنٹ مین شہباز نے وصول کیے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا کہ ’شعیب ریاض نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ملزم ڈکی بھائی کے اکاؤنٹ سے 326420 ڈالر بذریعہ Binance اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے۔

’دوران انکوائری یہ ملزمان گرفتار ملزم سعد الرحمان و دیگر کو ریلیف کا جھانسہ دے کر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال اور رشوت لیتے ہوئے درست طور پر قصور وار پائے گئے ہیں۔‘

ایف آئی اے نے این سی سی اے کے جن چھ افسران کو گرفتار کیا انہیں منگل کو لاہور کی ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے نے جوڈیشل میجسٹریٹ نعیم وٹو سے گرفتار افسران سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے منظور کر لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان